کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 169
نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔ (صحیح مسلم:۳۰۱۰) امام الائمہ امام ابن خزیمہ نے کہا: والمأ موم من الرجال إن کان واحدًافسنتہ أن یقوم عن یمین إمامہ۔ ’’ اگر مقتدی مرد اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ امام (کے ساتھ اُس)کی دائیں طرف (نماز پڑھنے کے لیے )کھڑا ہو۔‘‘ (صحیح ابن خزیمہ ۳/۳۱ح۱۵۷۰) ٭: ان دونوں احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر ایک آدمی نماز اداکررہا ہو تو بعد میں آنے والا اگر اس کے ساتھ نماز میں مل جائے تو جماعت ہو سکتی ہے ۔ امام بخاری نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا کہ: إذا لم ینو الإمام أن یؤم ثم جاء قوم فأمھم ۔ ’’جب امام نے امامت کرانے کی نیت نہ کی ہو پھر کوئی قوم آجائے تو وہ ان کی امامت کرادے۔‘‘ (ح۱۹۹) جب دو مقتدی ہوں تو امام کے پیچھے کھڑے ہوں: سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے ،پھر میں (جابر رضی اللہ عنہ )آیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا ،آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اورگھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔ پھر جبار بن صخر رضی اللہ عنہ آئے، انھوں نے وضو کیا، پھر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبداللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ عنہما دونوں کو پکڑکرپیچھے دھکیل دیا حتیٰ کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے ۔‘‘ (دیکھئے: صحیح مسلم:۳۰۱۰) اس حدیث پر امام ’’ ابن خزیمہ: ۱۵۳۵‘‘ نے یہ باب باندھا ہے: ’’باب قیام الإثنین خلف الإمام ‘‘ دو آدمیوں کا امام کے پیچھے کھڑے ہونے کا بیان ۔