کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 150
وشفقت ہے۔ انسانی جسم میں بھی عدل کا خیال رکھا کہ سر کا بعض حصہ مونڈ کر اور بعض حصہ ترک کر کے سر کے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے ۔بالوں سے کچھ حصہ سر کا ننگا کر دیا جائے اور کچھ حصہ ڈھانک دیا جائے یہ ظلم کی ایک قسم ہے۔‘‘ (تحفۃ المودود بأحکام المولود ص۶۹) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا: احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ ۔ ’’ تم اس کا سارا سر مونڈو یا سارا سر چھوڑو۔‘‘ (ابو داود:۴۱۹۵ وسندہ صحیح) اس حکم میں جوان اور بڑے مردبھی شامل ہیں اور صرف بچوں کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ مسلمان عورت کے سر کے بال: عورت اپنے سر کے بال نہیں کٹواسکتی کیونکہ اس سے مردوں کی مشابہت لازم آتی ہے ، لہٰذامنع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعن اللّٰه المشتبھین من الرجال بالنساء والمشتبھات من النساء بالرجال۔ (صحیح البخاری:۵۸۸۵) ’’اللہ لعنت کرے ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت اختیار کرتے ہیں اور (اللہ لعنت کرے) ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہیں۔‘‘ آج کی جدت پسند عورت ہر کام میں اپنے آپ سے مردوں کو حقیر سمجھتی ہے۔ اللہ نے عورت کوجو مقام دیا ہے وہ اس سے زیادہ کی اُمنگ لیے ہوئے ہے، اسی لیے وہ ذلیل