کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 140
اور اس وقت ہم چُوزوں کی طرح (بہت کم سن) تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’بال مونڈنے والے کو بلا کر میرے پاس لاؤ‘‘(جب وہ آگیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (ہمارے بال)مونڈنے کا حکم دیا اور اسی نے ہمارے سروں کو مونڈا۔‘‘ (ابوداود:۴۱۹۲وسندہ صحیح وصححہ النووي في ریاض الصالحین:۱۶۴۲علیٰ شرط البخاري ومسلم، النسائي: ۵۲۲۹) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا جس کا آدھا سر مونڈا ہوا تھااور آدھا نہیں مونڈا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ ۔ ’’ اس کے سر کے سارے بالوں کو مونڈ دو یا سارے بال چھوڑ دو۔‘‘(أبوداود:۴۱۹۵ وسندہ صحیح) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ سر کے تمام بالوں کو بطور ضرورت مونڈنا صحیح ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مدینے میں قربانی کی اور اپنا سر مونڈا یعنی مونڈوایا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ۳/ ۲۳۷ ح۱۳۸۸۸ وسندہ صحیح، طبعۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان) بہتر یہی ہے کہ حج اور عمرے کے علاوہ عام دنوں میں سر نہ منڈایا جائے لیکن اگر کوئی بیماری یا عذر ہو تو ہر وقت سر منڈوانا جائز ہے۔ جوکام بچوں کے لئے جائز ہے وہ کام بڑوں کے لئے بھی جائز ہے اِلایہ کہ کوئی صریح وخاص دلیل مردوں کو اس سے خارج کر دے۔ خوارج کے ساتھ خشوعِ نماز ، قراء ت ِ قرآن اور سر منڈانے میں مشابہت کا یہ مطلب غلط ہے کہ یہ افعال ناجائز ہیں۔ ۴۔ حج اور عمر ہ کے موقع پر ۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ اٰمِنِیْنَ لا مُحَلِّقِیْنَ رُئُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَاتَخَافُوْنَ ﴾ [الفتح: ۲۷]