کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 135
’’یعنی بال پاک ہیں وگرنہ وہ (صحابۂ کرام)ان کی حفاظت نہ کرتے اور عبیدہ(تابعی) تمنا بھی نہ کرتے کہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہوتا،جب بال پاک ہیں تو جس پانی میں بالوں کو دھویا گیا ہے وہ بھی پاک ہے۔ ‘‘ (فتح الباری۱/۳۶۳) حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں: ’’جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں اوریہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ ‘‘ (فتح الباری۱/۳۶۴) اُم المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے، جسے انھوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا۔ یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے۔ جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہوجاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا۔ (آپ اس برتن کے پانی میں وہ بال ڈبو دیتیں) [صحیح البخاری: ۵۸۹۶ ،فتح الباری ۱۰/ ۳۵۳] معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے ۔ انسانی بالوں کی خریدو فروخت ناجائز ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ﴾ اور ہم نے آدم( علیہ السلام ) کی اولاد کو عزت دی (بنيٓ إسرآئیل:۷۰) کے خلاف ہے ۔ انسانی بالوں کی خریدوفروخت میں انسان کی تکریم نہیں رہتی بلکہ تذلیل ہے۔ ۳۔ بالوں کی تکریم کرنا ضروری ہے۔ (دیکھئے سنن ابی داود:۴۱۶۳وسند ہ حسن، اسے ابن حجر نے فتح الباری: ۱۰/۳۶۸ میں حسن کہا ہے ) بالوں کی تکریم میں درج ذیل چیزیں آتی ہیں: ۱۔ پہلے دائیں طرف سے کنگھی کرنا اور یہ بہت زیادہ مستحب ہے۔