کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 130
لوگوں میں اللہ تعالی کے زیادہ قریب وہ ہیں جو سلام میں پہل کرتے ہیں۔ (أبو داود: ۵۱۹۷، ترمذی: ۲۶۹۴، صحیح) جب کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اس کے سلام کہے اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار حائل یا پتھر ہو جائے،پھر اسے ملے تو سلام کہے۔ (أبو داود:۵۶۰۰،صحیح) جب کوئی مجلس میں پہنچے تو سلا م کہے اور جب اٹھ کر جانے لگے تب سلام کہے۔ (أبو داود:۵۲۰۸، ترمذی:۲۷۰۶، حسن) بچو ں کے پاس سے گزرتے وقت انھیں سلام کہنا مسنون ہے۔ (بخاری:۶۲۴۷،مسلم:۲۱۶۸) عورت مردوں کوسلام کہہ سکتی ہے۔ (مسلم:۳۳۶) اور عورت مردوں کو کہہ سکتے ہیں۔ (أبو داود:۵۲۰۴، ترمذی:۲۶۹۷، حسن) یہود و نصاری کو سلام میں پہل کرنی حرام ہے۔ (مسلم:۲۱۶۷) اگر ایسی مجلس ہے کہ وہاں مسلمان ،مشرک بت پرست اور یہود ملے جلے ہیں تو انھیں سلام کہہ دینا درست ہے۔ (بخاری: ۶۲۵۴، مسلم: ۱۷۹۸) سلام ان الفاظ سے کہنا چاہیے:السلام علیکم۔ (بخاری:۶۲۲۷، مسلم:۲۸۴۱) السلام علیکم کہنے سے دس نیکیاں السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے سے بیس نیکیاں اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ (أبو داود: ۵۱۹۵، ترمذی: ۲۶۸۹، حسن) یا سلام علیکم کہے۔ (انعام:۵۴) اکیلے کو سلام علیک کہنا۔ (مریم:۴۷) یا اگر کچھ لوگ سو رہے ہیں اور کچھ جاگ رہیں تو اس طرح سلام کہنا چاہیے کہ جاگنے والے سن لیں اور سونے والے بیدار نہ ہوں۔ (مسلم:۲۰۵۵) سوارپیادہ چلنے والے کو سلام کہے اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ