کتاب: شرعی احکام کا انسائیکلوپیڈیا - صفحہ 103
اب دوسرے دن ساڑے گیارہ بجے کے قریب اس دائرہ کے پاس بیٹھ جائیں جب دائرہ کے مرکز میں نصب شدہ سریے یا لکڑی کا سایہ خطِ نصف النہار پر پہنچ جائے تو سایہ کے آخری سریے پر خطِ نصف النہار میں نشان لگا دیں ۔یہ وقت وقتِ زوال ہے اور خط نصف النھار میں نشان سے لے کر سریے یا لکڑی کی جڑ تک یا مرکز دائرہ تک سایہ فئے زوال کی پیمائش کر لیں اب سایہ جونہی خطِ نصف النھار سے بجانب مشرق بڑھنا شروع ہو گا، ظہر کا وقت شروع ہو جائے گا اور بڑھتے بڑھتے جب سایہ سریے یا لکڑی کی پیمائش جمع فئے زوال کی پیمائش کے برابر ہو جائے گا تو ظہر کا وقت ختم اور عصر کا وقت شروع ہو جائے گا اور اس وقت سایہ ایک مثل ہو گا کیونکہ ایک مثل فئے زوال کو نکا ل کر ہے۔‘‘(احکام و مسائل:۱/۱۱۷) یا کسی کھلی اور ہموار زمین میں زوال سے پہلے ایک لکڑی گاڑ دی جائے اس لکڑی کا سایہ آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ زوال کاوقت کم سے کم رہ جائے گا اس سائے کو ماپ لیا جائے جب یہ سایہ بڑھنا شروع ہو تو وہ اس بات کی علامت ہے کہ زوال ہو گیا ہے پھر جب یہ سایہ اس قدر بڑھ جائے کہ لکڑی کے برابر ہو جائے (زوال کے وقت لکڑی کا ماپا ہوا سایہ اس سے وضع کرنے کے بعد) تو ایک مثل وقت ہو جائے گا اور جب دو گنا ہو جائے تو دو مثل ہو جائے گا۔ (فقہ السنۃ:۱/۱۱۵) تنبیہ:زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہو گا ۔یہی بات امام ابن تیمیہ کے فتاوی (۲۲/۷۴) فقہ حنفی کی کتاب الھدایہ(۱/۴) فقہ شافعی کی المجموع (۳/۸۱) فقہ حنبلی کی الروض المربع (۱/۴۲) وغیرہ میں موجود ہے ،الغرض یہ بات اتفاقی ہے کہ زوال کا سایہ نکال کر مثل پیمائش ہو گی۔ کذا فی! (آپ کے مسائل اور ان کا حل للشیخ مبشر احمد ربانی حفظہ اللّٰہ:۳/۱۱۳۔۱۱۴)