کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 96
﴿ وَلَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ﴾(البقرۃ: 145)
’’ اور اگر تم ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آؤ تو بھی یہ تمہارے قبلہ کی پیروی نہ کریں۔‘‘
ان آیات سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اپنا کلام، اپنے کلمات اور اپنی کتاب کہا ہے،اور اسے اپنی طرف مضاف(منسوب) کیا ہے۔اور ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام کو بدل ڈالتے ہیں۔
گمراہ فرقوں کا یہ کہنا کہ: ’’ قرآن کی اضافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسے ہی ہے جیسے اونٹنی کی اضافت، یا مسجد کی اضافت۔ کہا جاتا: ناقۃ اللّٰه،(اللہ کی اونٹنی)، بیت اللّٰه(اللہ کا گھر)، عبد اللّٰه(اللہ کا بندہ)، حالانکہ یہ تمام مخلوق ہیں، ایسے ہی کلام اللہ بھی مخلوق ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ یہی تمہاری تلبیس و افتراء اورکذب بیانی ہے جس میں تم راہ حق سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہو۔اللہ تعالیٰ کی طرف اضافت کی دو قسمیں ہیں:
1۔ اضافت معنوی
2۔ اضافت عینی
اضافت معنوی:… صفت کو موصوف کی طرف مضاف کرنا ہے اور یہی حقیقی اضافت ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات آتی ہیں جیسے سمع، بصر کلام وغیرہ۔
اضافت عینی:… جیسے: ناقۃ اللّٰه،(اللہ کی اونٹنی)، بیت اللّٰه(اللہ کا گھر)، عبد اللّٰه(اللہ کا بندہ)۔ یہ تمام مخلوق کے اپنے خالق کی طرف مضاف ہونے کی مثالیں ہیں۔ اسے شرف و عزت اورتکریم کی اضافت بھی کہتے ہیں۔
ان لوگوں نے ان دونوں کو آپس میں ملادیا، اوران میں کوئی فرق نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اہل سنت و الجماعت نے عقائد کی کتابوں میں گمراہ فرقوں پر رد کرتے ہوئے یہ بات بڑے زور کے ساتھ کہی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام نہ ہو، تو پھر یہ کیسے گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ حکم بھی دیتا ہے، اور منع بھی کرتا ہے ؟ جب کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے اوامر و نواہی سے بھرا ہوا ہے۔علمائے سلف نے اسی عقیدہ کی تعلیم دی ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کاکلام ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اسے اپنی آراء سے نہ بدلو۔‘‘[1]
حضرت عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامت رحمہم اللہ فرماتے ہیں: ’’ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہ وہ
[1] رواہ عبدالرزاق في المصنف 156، ابن بطہ فے الإبانہ (21)، مختصر الشریعہ 57۔