کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 94
الحمد لمن قدّر خیر و خبالًا
والشکر لمن صوّر حسناً وّ جمالًا
فردٌ صمدٌ عن صفۃ الخلق بريٌ
رب أزلي خلق الخلق کمالًا
’’ تمام تر تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے بھلائی اور برائی کو مقدر کردیا ہے اور اس ذات کے لیے شکر ہے جس نے حسن و جمال کی تصویر سازی کی ہے۔ وہ اکیلا ہے، بے نیاز ہے اورمخلوقات کی صفات سے بری ہے۔ وہ ازلی رب ہے جس نے پوری خلق کو کمال کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔‘‘
قرآن کے بارے میں
قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ حقیقی کلام کیا ہے، جسے جبریل امین علیہ السلام نے سنا اور پھر اسے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئے۔ قرآن نازل ہونے کے وقت سے لے کرآج تک سلف ِ صالحین کا یہی ایمان و عقیدہ رہا ہے اور اسی پر اہل سنت و الجماعت آج تک قائم ہیں۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی اس عقیدہ کی مخالفت نہیں کی۔ جب جہمیہ اور قدریہ کا فتنہ پیدا ہوا تو لوگ اللہ کے کلام کے متعلق باتیں بنانے لگے، اور قرآن کو مخلوق کہنے لگے۔ چنانچہ جہم بن صفوان اور جہمیہ کے بغل بچوں: معتزلہ، قدریہ، رافضہ، زیدیہ، اباضیہ اورشیعہ نے یہ مسئلہ جہم بن صفوان سے لیتے ہوئے قرآن کے کلام اللہ اور اس کی صفت ہونے کا انکار کیااور اسے مخلوق کہنے لگے۔اور اہل سنت و الجماعت کے حق منہج سے بھٹک گئے، اور ان کی مخالفت کرنے لگے۔ اس لیے کہ ان کے ایمان و عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرتا، لہٰذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔چونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بیشتر صفات کا انکار کرتے ہیں، یا اس میں تأویل کرتے ہیں۔ ان حالات میں جہمیہ اور معتزلہ کو بعض عباسی خلفاء کی حمایت بھی حاصل ہوگئی، جس کی وجہ سے انہوں نے ڈنڈے کے زور پر اس عقیدہ کو لوگوں سے منوانا شروع کیا۔ بے شمار بے گناہ لوگ قتل کردیے گئے۔ ہزاروں کی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑااور ہزاروں کو کوڑے لگائے گئے۔ان حالات میں آئمہ اہلِ سنت و الجماعت نے اپنی جانوں کے نذرانے دیکر اس عقیدہ کی حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس عظیم قربانی پر اجر عظیم عطا فرمائے۔
اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ قرآن کے بارے میں اہل سنت کا عقیدہ بیان کررہے ہیں۔
16۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((والقرآن کلام اللّٰه و تنزیلہ ونورہ، لیس بمخلوق، لأن القرآن من اللّٰه، وما کان من اللّٰه فلیس بمخلوق، وہکذا قال مالک بن أنس، وأحمد بن حنبل، والفقہاء