کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 93
(اور) معبود ہے؟ بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔یا وہ جو لاچار کی دعا قبول کرتا ہے، جب وہ اسے پکارتاہے اور تکلیف دور کرتا ہے اور تمھیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی(اور) معبود ہے؟ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔یا وہ جو تمھیں خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں راہ دکھاتا ہے اور وہ جو ہوائوں کو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری دینے کے لیے بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی(اور) معبود ہے؟ بہت بلند ہے اللہ اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔یا وہ جو پیدائش کی ابتدا کرتا ہے، پھر اسے دہراتا ہے اور جو تمھیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی(اور) معبود ہے؟ کہہ لائو اپنی دلیل، اگر تم سچے ہو۔‘‘
پھر ایسے لوگوں کا سچا ہونا بیان کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ کی صفات پر بغیر کسی تأویل و تحریف کے کامل یقین رکھتے ہیں فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا﴾(الحجرات: 15)
’’ مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور پھر شک وشبہ نہ کریں۔‘‘
سو مراد یہاں پر صفات باری تعالیٰ بھی ہیں۔ کیونکہ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اللہ تعالیٰ پر محض ایمان رکھتے تھے مگر اس کی صفات اور افعال کو اپنے معبودوں میں تقسیم کررکھا تھا۔
اہل ِ سنت و الجماعت اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو ان کی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے لیے بر حق اورثابت مانتے ہیں، اور ان میں سے کسی چیز کا انکار نہیں کرتے، نہ ہی ان کے لیے کوئی مثال بیان کرتے ہیں، اور نہ ہی ان میں تحریف یا تأویل کرتے ہیں۔ان کا ایمان ہے کہ ان صفات کے وہی معانی ہیں جو الفاظ سے ظاہر اور عیاں ہیں۔ لیکن ان صفات کی کیفیت کاعلم اللہ تعالیٰ کی طرف ہی تفویض کرتے ہیں، چنانچہ ان کے ہاں مشہور قاعدہ ہے:
((القول في الصفات کا لقول في الذات۔))
’’اللہ تعالیٰ کی صفات میں کلام ایسے ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام ہے۔‘‘
یعنی بغیر کیفیت کی گہرائیوں میں جانے کے اس کی حقیقت پر ایمان رکھا جائے۔
اور دوسرا قاعدہ ہے کہ:
((القول في بعض الصفات کالقول في بعض آخر۔))
’’ بعض صفات کے بارے میں کلام کرنا ایسے ہی ہے جیسے بعض دوسری صفات کے بارے میں۔‘‘
اس سے مقصود یہ ہے کہ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات مانتے ہیں، جیسے اس کا علیم ہونا، خبیر ہونا خالق و قادر ہونا وغیرہ۔ مگر دوسری صفات کا انکار کرتے ہیں: جیسے اللہ تعالیٰ کے ہاتھ، انگلیاں اور پاؤں وغیرہ۔ حالانکہ جیسے اللہ کا علم اور قدرت اس کی شان کے لائق ہے، ایسے ہی اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کی شان کے لائق ہیں۔ شاعر کہتا ہے: