کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 90
کے عرش پر بلند ہونے اور خفیہ امور کے عالم ہونے کے مابین کوئی اختلاف یا تضاد باقی نہیں رہے گا۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اور اس کا علم ہر جگہ پر ہے۔ اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے)۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَایَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِی السَّمَآئِ ﴾(آل عمران: 5)
’’بے شک اللہ سے کوئی چیز چھپی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ عِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّ رَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَ لَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍo وَ ہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ ثُمَّ یُنَبِّئَکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo﴾(الانعام: 59۔ 60)
’’اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اس کو(بھی وہی) جانتا ہے اور ایک پتہ نہیں گرتا مگر اس کو معلوم رہتا ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کے اندھیروں میں(یعنی زمین کے اندر یا تاریک مقاموں میں) اور نہ کوئی ہرا نہ کوئی سُوکھا جو کھلی کتاب(لوح محفوظ میں)۔اور وہی اللہ ہے جو رات کو تم کو سُلا دیتا ہے(یا تمھاری جان اٹھا لیتا ہے) اور دن میں جو(کام) کر چکے تھے اُس کو جانتا ہے پھر سوتے سے تم کو ایک مقرری مدت پوری ہونے کے لیے جگاتا ہے پھر اسی کی طرف تم کو لوٹ جانا ہے پھر جو کچھ تم(دنیا میں کیا کرتے تھے) وہ تم کو جتلا دے گا۔‘‘
یعنی کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کی مکمل دسترس اور کنٹرول میں ہے۔ کوئی بھی چیز اس کی پہنچ اور علم سے باہر نہیں ہے۔وہ غیب کا علم جانتا ہے، اور دور ہو کر بھی اپنی قدرت کے ساتھ ہر انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، اور دل کی دھڑکنوں کا جاننے والا ہے اور کائنات کی کوئی ادنیٰ سے ادنی چیز بھی اس کی مشیت کی خلاف نہیں ہو سکتی۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ اور ہر چیز میں موجود ہے، اسے عقیدہ ء حلول و اتحاد کہا جاتا ہے۔سلف ِ صالحین اس عقیدہ کے نام تک سے واقف نہیں تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ علم کلام اور علم فلسفہ آجانے کے بعد کی ایجاد ہے۔ جسے جاہل صوفیوں نے ہوا دی اور مسلمانوں کے سادہ لوگ ان کے پھندوں کا شکار ہوگئے۔
ایسے لوگ اپنے عقیدہ اور مذہب کی تائید میں متشابہ آیات پیش کرتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے ان آیات کی تفسیر کرتے ہیں جو کہ حق تعالیٰ کی مراد سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے متشابہات میں بلاوجہ کٹ حجتی کرنے سے منع فرمایا ہے، فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ مِنْہُ آیَاتٌ مُّحْکَمَاتٌ ہُنَّ أُمُّ الْکِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِہَاتٌ