کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 89
مخلوق اللہ کی نسبت ایسی حقیر ہے گویا کہ کچھ بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا اور سب پر بلند ہے، ہم اسے کسی چیز پر قیاس نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾(الزمر: 67) ’’اوران کا فروں نے اللہ کا جیسا مربتہ تھا ویسا مرتبہ نہیں سمجھا(جب تو شر ک کرنے لگے) اور(وہاں تو یہ حال ہے کہ) قیامت کے دن ساری زمینیں(ساتوں زمینیں) اس کی ایک مٹھی میں ہونگی اور آسمان(ایک کا عذ کی طرح)اس کے داہنے ہاتھ پر لپٹے ہوں گے یہ لوگ جن کو اس کا شریک بتاتے ہیں اس کی ذات ان سے(کہی) پاک اوربرتر ہے۔‘‘ سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی عظمت، اس کی ہیبت، اس کبریائی اور جبروت کا احساس اور ادراک نہیں۔دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو دہراتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ َلَو ِاجْتَمَعُوْا لَہٗ وَ اِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُo مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌo﴾(الحج: 73-74) ’’لوگو(تمھارے سمجھانے کے لیے)ایک مثال بیان کی جاتی ہے دل لگا کر سنو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو(بت یا او تار یاجن یا شیطان یا اولیاء وغیرہ) وہ ہر گز ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے گو اس کے(بنانے کے لیے(سب کے سب) اکٹھا ہو جائیں(سب مل کر بھی نہیں بنا سکتے)اور(خیر بنانا تو کجا)اگر مکھّی ان سے کچھ اچک لے(چین کرچل دے) تو(پھر)اس سے وہ چیز چھڑا نہیں سکتے(وہ ہاتھ کہاں آتی ہے) چاہنے والا اور جسے چاہتے ہیں دونوں بودے کمزور۔ان مشرکو نے اللہ تعالیٰ کا مرتبہ جیسے کرناچاہیے ویسا مرتبہ نہیں کیا بے شک اللہ تعالیٰ توطاقت والا زبردست ہے۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(وہ خفیہ اور پوشیدہ باتیں جانتا ہے، وہ اپنے عرش پر مستوی ہے):سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہونا اس کے خفیہ اورپوشیدہ باتیں جاننے کے منافی نہیں ہے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جب وہ اپنے عرش پر مستوی ہوتا ہے تو لوگوں سے دور ہوجاتا ہے۔اب نہ ہی وہ دیکھتا اور سنتا ہے اور نہ ہی کچھ جانتا ہے۔ معاذ اللہ ایسا کرنا تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہر قسم کی تشبیہ اور مماثلت سے بری ہے۔ ایسی صورت میں مسلمان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات والی آیات اور احادیث پر مکمل ایمان رکھتے ہوئے بغیر کسی تأویل اور تحریف کے، اور بغیر کسی تشبیہ اور تمثیل کے بیان کرنے کے ان پر ایمان لائے۔ کہ ان الفاظ کے وہی معنی ہیں جو ہم سمجھتے ہیں۔ مگر اس کی کیفیت وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔ تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ