کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 87
﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِیْ الْأَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا وَہُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنتُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌo﴾(الحدید: 4) ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ احادیث سے عرش پر مستوی ہونے کے دلائل کتاب اللہ کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے بے شمار دلائل ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لماقضی اللّٰه عزوجل الخلق، کتب کتاباً فہو عندہ فوق العرش: ’’ إن رحمتي سبقت غضبي)) [1] ’’ بیشک جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو ایک تحریر لکھی جو اس کے پاس عرش پر ہے اس میں لکھا ہوا ہے:’’ بیشک میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔‘‘ یہ استوی اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے، جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، اور نہ ہی اس کی کوئی مثال بیان کرسکتے ہیں، اور نہ ہی اس کی کوئی تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ امام لالکائی رحمہ اللہ نے اپنی سند سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی ﴾(یعنی اللہ) الرحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔‘‘کی تفسیر میں نقل کیا ہے، آپ فرماتی ہیں: ’’ استوی معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے، اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے، اور اس کے متعلق بحث کرنا کفر ہے ‘‘[2] امام مالک رحمہ اللہ سے بھی اس قسم کی عبارت منقول ہے اور آپ کا یہ بھی فرمانا ہے: ’’ مسئلہ استواء تمام صفات میں ایک قاعدہ اور اصول کی حیثیت رکھتاہے اور یہی تمام اہلِ سنت والجماعت کا قول ہے اور جس نے تفویض کامسلک سلف ِ صالحین-اہل ِ سنت والجماعت-کی طرف منسوب کیا، اور[یہ کہا کہ سلف] ان نصوص کو ان متشابہات میں سے قرار دیتے ہیں کہ جس کے معانی کا علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے،
[1] رواہ البخاری (7453)، مسلم (2751)، المصنف(656)، مختصر الشریعہ 168۔ [2] أقاویل الثقات في تأویل الأسماء والصفات والآیات المحکمات و الشابہات: مرعي بن یوسف الکرمي المقدسي، مؤسسۃ الرسالۃ بیروت، 1/118۔