کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 86
اہل سنت والجماعت کا مذہب باقی اسماء و صفات کی طرح ’’ استوی ‘‘میں بھی بر حق اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی راہ پر رہا ہے، کہ یہ استوی حقیقی ہے، مگر اس کی کیفیت کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے، اور یہ استوی ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔ قرآن سے عرش پر مستوی ہونے کے دلائل عرش پر مستوی ہونے کے کتاب و سنت میں کئی ایک دلائل ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ﴾(الرعد: 2) ’’ اللہ وہی تو ہے جس نے ستونوں کے بغیر آسمان جیسا کہ تم دیکھتے ہو(اتنے) اونچے بنائے پھر عرش پر جا ٹھہرا اور سورج اور چاند کو کام میں لگا دیا۔‘‘ اور فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿إِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِیْ اللَّیْلَ النَّہَارَ﴾(الاعراف: 54) ’’ کچھ شک نہیں کہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا، وہی رات کو دن کا لباس پہنا تا ہے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی o لَہُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَیo وَإِن تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّہُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی﴾(طہ: 5-7) ’’(یعنی اللہ) الرحمن جس نے عرش پر قرار پکڑا۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور جو کچھ(زمین کی) مٹی کے نیچے ہے سب اُسی کا ہے اور اگر تم پکار کر بات کہو تو وہ تو چھپے بھید اور نہایت پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے۔‘‘ نیز فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ الرَّحْمَنُ فَاسْأَلْ بِہِ خَبِیْراً ﴾(الفرقان:59) ’’جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا، وہ(جس کا نام) رحمن(یعنی بڑا مہربان) ہے تو اس کا حال کسی باخبر سے دریافت کر لو۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: