کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 85
’’اے اللہ ! آسمانوں کے رب اور زمین کے رب، اور عرش عظیم کے رب، ہر ایک چیز کے رب ! اے دانے اور گھٹلی کو پھاڑنے والے، تورات، انجیل اور فرقان کے نازل کرنے والے، میں ہر اس چیز سے تیری پناہ مانگتی ہوں جس کو تو پیشانی سے پکڑنے والا ہے، اے اللہ ! تو ہی پہلا ہے، تجھ سے پہلے کچھ بھی نہیں، اور تو ہی آخری ہے، تیرے بعد کچھ بھی نہیں، اور تو ہی سب سے بلند ہے، تجھ سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے، اور تو ہی باطن ہے، تیرے علاوہ کچھ بھی نہیں،، ہم سے قرض ادا کردے، اور ہمیں فقر سے غنی کردے۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا پیرایہ اسی عقیدہ کے بیان میں ہے اور ان لوگوں پر رد ہے جو ہر جگہ اور مکان پر اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کے قائل ہیں۔ حضرت ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا دوسری امہات المؤمنین پر فخر کیا کرتی تھیں، اور فرماتی:’’ تمہاری شادیاں تمہارے گھر والوں نے کروائی ہیں، اور میری شادی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے کروائی ہے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ﴾(الحدید: 3) ’’ وہی أول اور(سب سے) آخر(پچھلا) اور ظاہر اور پوشیدہ ہے۔‘‘کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ((أنت الأول فلیس قبلک شيء، وأنت الآخر فلیس بعدک شيء، و أنت الظاہر فلیس فوقک شيئ، وأنت الباطن فلیس دونک شيئ)) [2] ’’اے اللہ ! تو ہی پہلا ہے، تجھ سے پہلے کچھ بھی نہیں، اور تو ہی آخری ہے، تیرے بعد کچھ بھی نہیں، اور تو ہی سب سے بلند ہے، تجھ سے اوپر کچھ بھی نہیں ہے، اور تو ہی باطن ہے، تیرے علاوہ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اہل علم کا کہنا ہے: یہاں پر ’’ ظہور ‘‘ سے مراد ’’ علو ‘‘ ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے: ﴿فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ یَّظْہَرُوہُ ﴾(الکہف: 97) ’’ پھر ان میں یہ قدرت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں۔‘‘ یعنی کہ وہ ان پر بلند ہے،[جہاں تک کسی کی پہنچ ممکن نہیں] اورانہوں نے کہا ہے: ’’ یہ چار اسماء گرامی ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ ان میں سے دو اسماء اللہ تعالیٰ کی ازلیت اور ابدیت سے تعلق رکھتے ہیں اور دو کا تعلق اللہ تعالیٰ کے بلند ہونے سے اور قریب ہونے سے ہے۔اللہ تعالیٰ جیسے بلند ہونے کے باوجود قریب ہے، ایسے ہی قریب ہونے میں بھی اپنی شان کے مطابق بلند ہے۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان:(وہ اپنے عرش پر مستوی ہے …): اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا مسئلہ بھی باقی صفات کی طرح مناظرہ اور مجادلہ کا موضوع رہا ہے۔ جہمیہ معتزلہ اور اشاعرہ اور دوسرے باطل فرقے کچھ تو اس کا انکار کرتے رہے ہیں، اور کچھ نے اس میں تاویل کی ہے۔
[1] بخاری کتاب التوحید۔ [2] مسلم، کتاب التفسیر، رواہ ابو داؤد والترمذی، وابن ماجۃ و صححہ الألبانی ۔