کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 84
علمہ بکل مکان، لا یخلو من علمہ مکان۔)) ’’ہمارا رب تعالیٰ بغیر انتہاء کے سب سے پہلے ہے اور بغیر کسی منتہاء کے سب سے آخر میں ہے۔ وہ خفیہ اور پوشیدہ باتیں جانتا ہے۔ وہ اپنے عرش پر مستوی ہے ’’اور اس کا علم ہر جگہ پر ہے۔ اس کے علم سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے۔‘‘ شرح:…یہ مسلمانوں کے متفق علیہ عقائد میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے ہے، جس کی کوئی ابتداء نہیں، اور ابد تک ہے، جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ یہ عقیدہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسے ہی آیا ہے، اور اس پر الہامی مذاہب کا اتفاق ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾(الحدید: 3) ’’ وہ(سب سے) أول اور(سب سے) آخر(پچھلا) اور(اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور(اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے۔‘‘ اول:…یعنی وہ سب سے پہلے ہے، اس سے پہلے کچھ بھی نہیں۔ اور آخر: یعنی اس کے بعد کچھ بھی نہیں۔ ظاہر، یعنی بلند ہے، اس سے اوپر کچھ بھی نہیں، اور باطن: یعنی اس سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ ’’ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ازل سے اپنی ان صفات سے متصف ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے، انہیں کبھی زوال نہیں آئے گا۔ وہ اندھیر رات میں چٹیل چٹان پر چیونٹی کی حرکت کو بھی جانتا ہے … ‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم ’’اول ‘‘ بھی بیان کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس صفت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا ہے، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خادم مانگنے کے لیے آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم یوں کہو: ((اللّٰهم رب السموات ورب الأرض ورب العرش العظیم، ورب کل شيء، فالق الحب والنوی، ومنزل التوراۃ والإنجیل، والفرقان، أعوذبک من شر کل شيء أنت آخذ بناصیتہ، اللّٰهم ’’ أنت الأول‘‘ فلیس قبلک شيء، وأنت الآخر فلیس بعدک شيء، وانت الظاہر فلیس فوقک شيء، وأنت الباطن فلیس دونک شيء اقض عنا الدین وأغننا من الفقر))[2]
[1] اسماء اللّٰه الحسنی ص1۔ [2] مسلم، کتاب التفسیر، ورواہ ابو داؤد والترمذی، وابن ماجہ و صححہ الألبانی ۔