کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 83
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں سنا جو قرآنی آیات کو آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بیشک تم سے پہلے لوگ اس وجہ سے ہلاک ہوئے کہ وہ اللہ کی کتاب میں سے بعض آیتوں کو بعض دوسری آیات سے رد کرتے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی کتاب آپس میں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہے۔ سو اس کے کچھ حصہ سے باقی کو مت جھٹلاؤ، جس بات کا تمہیں علم ہو وہ کہہ دو، اور جس کا علم نہ ہو، وہ اس کتاب کے عالم پر چھوڑ دو۔‘‘[1]
اسی لیے صحابہ کرام اور سلف ِ صالحین سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی مخلوقات میں تدبر وتفکر کیا جائے، اس سے ایمان بڑھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں غو روفکر نہ کیا جائے اس لیے کہ شیطان شکوک و شبہات کے دروازے کھولتا ہے۔
ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں قیل و قال کرنا بے ادبی اور گستاخی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس قدر علم دے دیا ہے، جو اس پر ایمان لانے کے لیے کافی ہوجائے۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے وہ صفات کمال بیان کی ہیں جن کا کسی بشر کے ذہن پر گزرنا بھی ممکن نہیں ہے اور نہ ہی تمام بشریت مل کر اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی ایسی صفت بیان کرسکتی ہے جیسی اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے بیان کی ہیں۔ اصل میں اس پیرائے میں ان لوگوں پر رد ہے جنہوں نے اپنی عقل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ صفات کو ثابت کیا، اور باقی کا انکار کردیا۔ اس انکار کے نتیجہ میں انہیں ایسی صفات اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا پڑیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیان نہیں کیں۔ اس طرح انہیں ان کے کیے کا بدلہ مل گیا۔اس لیے کہ جس نے بھی سنت کو چھوڑا اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں اسے بدعت میں مبتلا کردیا۔
اہل کلام قرآن کے ان آیات کے بارے میں جن میں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا بیان ہے، دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے ہیں:
مفوضہ:… جو کہتے ہیں، ہم ان آیات میں توقف کریں گے، اور کہتے ہیں کہ ان کا ظاہر مراد نہیں ہے اور نہ ہی ہم اس کی مراد کو سمجھ سکتے ہیں۔
مؤولہ:… جو ان آیات کے اصلی معنی سے ہٹ کر اپنی مرضی سے تاویل کرتے ہیں۔
توحید اسماء و صفات
14۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((ربنا أول بلا متی، وآخر بلا منتہی، ویعلم السر و أخفی، وعلی عرشہ استوی، و
[1] رواہ مسلم (2666) وعبد الرزاق في المصنف (142-143)۔