کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 81
و الجماعت جنہوں نے کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے اس مصیبت سے محفوظ و مامون رکھا۔
محمد بن الحسین(آجری رحمہ اللہ) فرماتے ہیں: ’’ جب اہل علم تابعین اور ان کے بعد کے ائمہ مسلمین نے یہ حدیث سنی تو انہوں نے دین میں جھگڑا نہیں کیا اور نہ ہی ناحق کٹ حجتی کی اور مسلمانوں کو کٹ حجتی اور ناحق جھگڑا کرنے سے ڈراتے رہے اور انہیں سنت اختیار کرنے، اور اس راہ پر چلنے کا حکم دیتے رہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تھے۔اور یہی اہل حق کا طریقہ کار رہا ہے۔(مختصر الشریعہ 45)
دین میں(علم ِ)کلام(قیل و قال) پہلی صدی ہجری کے بعد کی ایجاد ہے، جسے مختلف فرقوں نے پیدا کیا ہے۔حضرات سلف صالحین اس سے واقف نہیں تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ائمہ دین سلف ِ صالحین رحمۃ اللہ علیہم دین میں جھگڑاو جدال کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔اور یہ لوگ خود بھی بغیر کسی مجبوری کے مناظرہ و جدال نہیں کیا کرتے تھے، سوائے اس کے کہ دین کی نصرت کے لیے مناظرہ کرنا لازمی ہو۔ ایسے ہی بعض فرقوں کے ساتھ نادر قسم کے مناظرات ہوئے ہیں، جیسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مناظرہ خوارج کے ساتھ، اور ایسے ہی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا خوارج کے ساتھ مناظرہ۔اور بعض ائمہ ِسلف صالحین کے مناظرے جیسے امام اوزاعی اور ثوری رحمہ اللہ کے قدریہ اور جہمیہ کے ساتھ مناظرے۔پھر جب فرقے بہت بڑھ گئے تو سلف صالحین نے مجادلہ و مناظرہ کا اسلوب حکمت اور حسن بیان کے ساتھ، اس کی پوری شرائط کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، دین کی نصرت کے لیے بعض مواقع پر اختیار کیا۔جس میں کوئی نا حق کٹ حجتی نہیں ہوا کرتی تھی۔جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق ہے۔ آپ کی یہ مبارک عادت تھی کہ اپنے فریق ِ مخالف پر حجت قائم کرنے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں کہتے تھے۔ بھلے دوسرا مناظر باتیں کرتا رہ جائے۔اسی وجہ سے آپ کے مناظروں میں حاظر ہونے والے بعض خلفاء اور سردار ناراض بھی ہوجایا کرتے تھے۔ مناظرہ کرنے سے سلف ِ صالحین کا قصد اپنے مخالف پر حجت قائم کرنا ہوتا تھا۔جب وہ دیکھتے کہ مناظرہ میں کو ئی خواہ مخواہ کٹی حجتی کررہا ہے، یا لوگوں کودکھانے کے لیے ضرورت سے زیادہ طول دینا چاہتا ہے، تو اس وقت اس مناظر جیسا ہی رد ِ عمل نہیں ظاہر کیا کرتے تھے، بلکہ خاموش ہو جایا کرتے۔ اس جھگڑے کا نقصان یہ ہے کہ خود مناظر کے دل میں، اور سامعین کے دلوں میں شک پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ دین کی بنیاد تسلیم و تصدیق اور یقین پر ہے۔ اسی لیے قرآن و سنت میں وارد ہونے والی دلیلیں مختصر او رایسی ہیں جو بدیہی طور پر سمجھ میں آ سکیں، اور وہ فطرت سے موافقت بھی رکھتی ہیں۔انہیں خواہ مخواہ طول نہیں دیا گیا۔ اسی چیز کی ان لوگوں کو ضرورت ہے جو حق اور اہل ِ حق کی نصرت کے لیے اہل ِ باطل سے مجادلہ اورمناظرہ کرتے ہیں۔