کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 80
’’ اگر میری ہدایت(شریعت یا کتاب یا رسول) تم تک آوے تو اس پر چلنا جو میری ہدایت پر چلیں گے ان کو نہ ڈر ہو گا نہ غم۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر ارشاد ِ ربانی ہے: ﴿ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰی ﴾(طہ: 123) ’’ اگر میری ہدایت(شریعت یا کتاب یا رسول) تم تک آوے تو اس پر چلنا جو میری ہدایت پر چلیں گے نہ ہی وہ گمراہ ہو گا اورنہ ہی بد بخت۔‘‘ یہاں پر مسئلہ اتباع کرنے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ہے۔ اہل بدعت اور گمراہ لوگوں نے دین میں جھگڑا اسی وجہ سے کیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایسے راضی نہ ہوئے جیسے اہل سنت و الجماعت راضی ہوئے۔آپ دیکھیں گے کہ اہل سنت و الجماعت کے تمام گروہ عقائد میں متحد ہیں اور ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ اختلاف تو گمراہ فرقوں میں ہے، جن کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾(البقرۃ:137) ’’پھر اگر وہ(یعنی یہود اور نصاریٰ) اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم لوگ ایمان لائے ہو، تو راہ پاگئے اگر نہ مانیں تو(وہ ضد) بد بختی میں گرفتار ہیں قریب ہے(وہ زمانہ) کو اللہ ان کے شر سے تم کو بے فکر کر دے گا اور وہ سنتا(ہے ان کی باتوں کو) جانتا ہے۔‘‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے گروہ بندی سے منع کرتے ہوئے اتباع حق کا حکم دیا ہے، فرمایا: ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾(الانعام:153) ’’اور(اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے) یہ میری سیدھی راہ ہے اس پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ تم کو اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گی یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے اس لیے کہ تم(ان کا خلاف کرنے سے) بچے رہو پھر(ایک بات اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے)۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(، اگرچہ یہ انسان حق اور سنت کو پاہی لے): اس کے باوجود وہ خطا کار ہے۔ اس لیے کہ حق کو پانے کے لیے اس نے درست طریقہ اختیار نہیں کیا۔ درست طریقہ یہ تھا کہ قرآن و حدیث کو چوں و چراں کیے بغیر مان لیا جاتااورجھگڑے میں پڑنے اور گہرائی میں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے کہ ایسا کرنے سے دلوں میں حسد و بغض پیدا ہوتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر کفر اور گمراہی کے فتوے لگانے لگتے ہیں۔ مبتدعین اورگمراہ فرقوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ ان میں کفر کا فتوی لگانے کی بیماری بہت زیادہ ہے۔ جب کہ اہل سنت