کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 75
یہ ان بڑے بڑے بدعتی فرقوں کے سرغنوں کا حال جن پر حجت قائم ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے ماننے والوں کو بدعت پر ابھارا اور انہیں آشیر باد دیتے رہے۔اس لیے کہ قرآن و سنت سے حجت قائم ہونے کے بعد حق سے سرکشی کرنے والا باغی ہی اپنی رائے پر اڑا رہ سکتا ہے۔ایسا انسان خواہ جتنی بھی پرہیزگاری ظاہرکرے اور تقوی کا لبادہ اوڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دے، مگر اپنے سے پہلے سلف ِصالحین اور صراط مستقیم پر چلنے والوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ شیطان مردود ہے، اس کی بات نہیں مانی جائے گی۔ بلکہ علمائے اہل سنت کی تصریحات اور وضاحت کے مطابق اکثر خواہشات کے پجاری بدعتی فرقے ’’نیکو کار اور عبادت گزار صالحین‘‘ کے روپ میں عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اس لیے علمائے کرام رحمہم اللہ فرماتے ہیں: کسی کے نیک اور متقی ہونے کی گواہی اس وقت تک نہ دو جب تک اس کے عمل کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھ نہ لو۔‘‘ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(ایسا شخص خود بھی گمراہ ہے اور…):یعنی وہ گمراہ ہے، اس پر اپنی گمراہی مخفی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا ارادہ لوگوں کو گمراہ کرنے کا ہے، اس لیے وہ خود بھی اس گمراہی پر قائم ہے۔ ایسا انسان سرکش اور باغی شیطان ہے اور جو کوئی انسان اس کی حقیقت کو جانتا ہو اس پر واجب ہے کہ لوگوں کی خیر خواہی کا حق اداکرتے ہوئے ان پر حق اور باطل کو واضح کریں۔ اس موقع پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لوگوں کو فکری اور اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ اس میں دخل اندازی نہیں کی جاسکتی۔ اظہار رائے کی آزادی، اور احترام رائے ایک دوسری چیز ہے، اور حق کا اظہار اور دعوت حق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دوسری چیز ہے۔ ایسے موقع پر خاموش رہنا لعنت کا موجب ہے، کیونکہ اس بے جا خاموشی میں دین و ایمان کی تباہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ ﴾(البقرۃ: 159) ’’بیشک جو ہم نے کھلی نشانیاں اور ہدایت کی باتیں اتاریں، اب اس کے بعد کہ ہم نے کتاب میں اسے لوگوں کے لیے بیان کردیا ہے، جو کوئی ان کو چھپاتے ہیں ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں۔‘‘ اس لیے کہ بدعات و مفسدات پر خاموشی اختیار کرنا صرف مبتدع کے لیے ہی خطرناک نہیں ہے، بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی تباہی کا موجب ہے جو اس پر خاموش رہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس معاملہ کولوگوں کے سامنے واضح کیا جائے، اور انہیں واپس صراط مستقیم پر لانے کی کوشش کی جائے۔ اور سادہ لوح عوام الناس کو ان لوگوں/ شیطان کے چیلوں سے خبر دار کیا جائے جو ان کے ایمان و عقیدہ سے کھیلتے ہیں، اور مختلف قسم کے مغربی، ملحدانہ، کافرانہ اور دوسرے خیالات و افکار کو اپنے معاشرہ میں پذیرائی دینے کی کوشش کرتے