کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 71
مادہ بہت ہی کم ہوگیا ہے۔ خواہ یہ دینی معاملہ ہو، یا دنیا کا، کسی سے روایت ہو، یا قصہ و حکایت کا نقل کرنا، یا بعض اشخاص پر حکم لگانا، یا بعض اشیاء پر حکم لگانا۔ بعض باتیں اس آخری وقت میں ایسی پھیل گئی ہیں جن سے وہ اہل علم بہت ہی تعجب کرتے ہیں جنہوں نے بڑے علماء کے ساتھ وقت گزارا ہے، اور ان کی صحبت اور علم کے حصول میں صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ معاملہ کی چھان بین، تحقیق و تدقیق اور اس کا صحیح علم حاصل ہونے تک صبر کیاجاتا اور اس کے بعد حکم لگایا جاتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس دور کے طلباء نے صحیح طور پر علمائے سلف صالحین کے منہج پرتربیت نہیں پائی۔اور ان میں سے اکثر لوگوں نے بغیر صحیح اصولوں اور منہج کے علم حاصل کیا ہے۔اور ان کے علم کا منبع ذاتی مطالعہ، اور ذرائع نشرو اشاعت ہیں۔ جن کی وجہ سے علم میں پختگی اور گہرائی نہیں آتی۔
دراوی کہتا ہے کہ خصوصاً ہمارے آج کل کے اس دور میں جو کہ میڈیا اور ذرائع نشرو اشاعت او رجدید ٹیکنالوجی کا دور ہے، اور ہر قسم کے لوگ میڈیا پر آکر اپنے اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں، یہ خطرہ بہت ہی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ان حالات میں اہل علم طلباء اور علمائے کرام پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں، اور ہر سنی سنائی پر کان نہ دھریں۔بلکہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و سمجھ حاصل کریں،اورپختہ علم حاصل کرنے کے لیے علماء حق سے منسلک رہیں۔اورمختلف شرعی مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کریں۔
دین کی تعلیم اور سمجھ حاصل کرنا دین کی حفاظت و عصمت کاایک ذریعہ ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ دین پر ثابت قدمی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے لیے پختہ علم کے ساتھ صبرو استقامت کا بھر پور مادہ چاہیے۔ کیونکہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ ہم پر اپنے افکار و آراء اور سیاست مسلط کریں، اور ہمیں بھی اسی راہ پر لے کر چلیں جس پر وہ خود گامزن ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(کوئی اثر ا ن [صحابہ ]سے مل جائے تو اس کومضبوطی سے پکڑ لو):
اس سے مقصود دین کے ساتھ مضبوط تعلق، اور اسے اس کے اصلی مصادر سے لینا ہے۔ اس لیے کہ دین کو خارجی دشمنوں سے اتنا خطرہ نہیں ہے جتنا داخلی فرقہ بندیوں سے پیدا ہونے والی کمزوریوں سے ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ اللہ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ دیا ہے، میں نے اس کا مشرق اور مغرب دیکھا۔ یقیناً میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی جہاں تک میرے لیے زمین سمیٹی گئی اور مجھے سرخ و سفید خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ: ’’میری امت کو عام قحط سے ہلاک نہ کرنا ‘‘اور ان پر ان کے علاوہ کسی کو مسلط نہ کرنا جو ان کی جڑ ہی کو مٹا دے۔ میرے رب نے کہا: ’’ اے محمد ! جب میں کوئی فیصلہ کردیتا ہوں توپھر اس کو نہیں بدلتا، میں تیری اس دعاکو قبول کرتا ہوں ان کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اوران پر ان کے علاوہ کوئی ایسا دشمن بھی مسلط نہیں کروں گا جو ان کے اصل دین کو مٹادے اور اگر پوری دنیا کے کافر مل کر بھی ان پر حملہ کردیں تب بھی وہ ان پر ایساتسلط نہ حاصل کر پائیں گے۔ مگر یہ ضرور ہوگا کہ