کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 70
’’کتنے ہی خیر کا ارادہ اور نیت رکھنے والے ہیں جو خیر کو پہنچ نہیں پاتے۔ بیشک ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ ایسی قومیں آئیں گی کہ قرآن پڑھیں گی، مگرقر آن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گااور اللہ کی قسم ! میں سمجھتا ہوں کہ ان کی اکثریت تم میں سے ہے۔ پھر وہاں سے پھرے اور چلے گئے۔عروہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ان کی اکثریت کو دیکھا جنگ نہروان کے دن وہ ہم پر نیزے برسارہے تھے۔‘‘(یعنی وہ خوارج کے ساتھ مل چکے تھے)[1]
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(وہ شروع میں چھوٹی اور حق سے مشابہ ہوتی تھی…):
یہ قاعدہ بھی علی الاطلاق نہیں ہے۔ کیونکہ بدعات میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو اسلام سے خارج کردیتی ہیں، اور بعض اس سے بہت کم درجہ کی ہیں اور ایسی بھی بدعات ہیں جو بدعتی کو دائرہ ِاسلام سے خارج نہیں کرتیں۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ساری کی ساری بدعات شر اور برائی ہیں اور یہ آہستہ آہستہ تدریجی طور پر اپنے ساتھی(یعنی بدعتی) کو اسلام سے منحرف کردیتی ہیں۔ شاید مؤلف رحمہ اللہ کایہی معنی ہے۔
دین پر ثابت قدمی
8۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((فانظر-رحمک اللّٰه-کل من سمعت کلامہ من أہل زمانک [خاصۃ] فلا تعجلن، و لا تدخلنَّ في شيئٍ [منہ] حتی تسألَ وتنظرَ: ہل تکلم بہ أصحاب رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم، [ أو أحد من العلمائ] فإن وجدت فیہ أثراً عنہم فتمسک بہ، ولا تجاوزہ لشيئٍ، و لا تختار علیہ شیئاً، فتسقط في النار۔))
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے: دیکھیں! ہر وہ شخص جس کا کلام آپ سنیں، [خصوصاً ]اپنے اہل زمانہ کا، توجلدی مت کریں اور ان میں سے کسی بھی چیز میں داخل نہ ہوں، یہاں تک کہ اس کے بارے میں دریافت کرلو`، اور دیکھو: کیا یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب[ یا علماء ] میں سے بھی کسی ایک نے کہی ہے۔ اگر اس میں کوئی اثر ا ن [صحابہ ]سے مل جائے تو اس کومضبوطی سے پکڑ لو،اور کسی بھی چیز کی خاطر اس سے آگے نہ بڑھواور نہ ہی اس پر کسی اور چیز کو اختیار کرو،کہ اس کی وجہ سے جہنم میں گر جاؤ۔‘‘
شرح:…یہ فقرہ بھی دین میں ثابت قدمی سے تعلق رکھتا ہے۔اور اس کوبھی اچھی طرح سے سمجھ لینا بہت ہی ضروری ہے۔خصوصاً ہمارے آج کل کے اس دور میں(یہ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ کا زمانہ ہے، چونکہ مصنف امام صاحب کے شاگردوں کے شاگرد ہیں)جب کہ بہت سارے معاملات میں اہل دین، طلباء اور بعض علماء میں ثابت قدمی اور صبرکا
[1] سنن الدارمی، ح: 210۔