کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 68
’’ بیشک میری امت میں ایسے لوگ نکلیں گے جنہیں خواہشات-نفس-ایسے لیے دوڑیں گی جیسے کتا اپنے مالک کے ساتھ دوڑتا ہے، اور نہ ہی کوئی رگ اور نہ ہی کوئی جوڑ ایسا باقی رہے گا مگر اس میں یہ-خواہشات-داخل ہوں گی۔‘‘ فرقوں کی ابتداء کیسے ہوئی؟ یعنی اہل بدعت خواہشات کے پیچھے پڑجاتے ہیں، اورخواہشات دھیرے دھیرے ان کو بدعات میں لے جاتی ہیں جیسے کوئی متعدی موذی مرض بیمار کو آہستہ آہستہ ہلاک کرکے رکھ دیتا ہے، ایسے ہی یہ بدعات بھی ہلاک کرکے رکھ دیتی ہیں۔اس لیے لازم یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں بھی اہل علم کی مخالفت نہ کریں، اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوں۔ اس لیے کہ جب فتنوں کی آگ پھیلتی ہے تو پھر گیلی اور خشک ہر چیز کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔نہ ہی اس سے عوام بچ سکتے ہیں اور نہ ہی خواص۔ یہی وجہ تھی کہ خیر القرون کے لوگ بدعات میں سے کسی معمولی سے معمولی چیز کو بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔اور ان کے سامنے کسی کو جرأت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ کسی ادنی سے ادنی بدعت کا کھل کر اظہار کر سکیں۔ مذکورہ بالا پیرائے میں وارد حدیث کا مصداق وہ تمام فرقے ہیں، جو اب خوب پل بڑھ چکے ہیں۔ مثال کے طور پر خوارج اور روافض۔ان کا سب سے پہلا اختلاف کبیرہ گناہ کے مرتکب افراد سے متعلق تھا۔(یہ لوگ کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر سمجھنے لگ گئے تھے)۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہنے لگے کہ:’’انہوں نے اللہ کے دین میں لوگوں کو حَکَمْ(یعنی جج)بنایا ہے، جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔اور پھر یہ نظریہ گھڑا کہ کبیرہ گناہ کفر ہے اور اس کا مرتکب اسلام سے خارج ہے۔ اپنے اس قول کی وجہ سے وہ مجبور ہوئے کہ کبیرہ گناہ کے مرتکب انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی قرار دیں۔ جب ان کو دائمی جہنمی قراردیا تو اب مجبوراً وہ عام مسلمانوں کو کافر اور مشرک تصور کرنے لگے۔پھر اس بنا پر ان کے لیے کسی بھی قسم کی شفاعت کا انکار کردیااور پھر اللہ تعالیٰ کے دیدار کا انکار کردیا، ان کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک وہ جہمی اور معتزلی بن گئے۔ پھر ایسے ہی قدریہ فرقہ نے سب سے پہلے یہ کہنا شروع کیا کہ:’’ تقدیر قدیم سے نہیں لکھی گئی بلکہ یہ کسی پیش آنے والے معاملہ پر منحصر ہے۔‘‘اور پھر خوارج کی طرح بات سے بات بڑھانے لگے یہاں تک کہ ایک مستقل فرقہ بن گیا اور یہ لوگ بھی پوری طرح معطلہ اور معتزلہ بن گئے۔ ایسے ہی اشاعرہ نے سب سے پہلے کلام کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لوازم میں سے قرار دیا۔اور کہنے لگے کہ:’’کلام قدیم ہے، اور بذات خود قائم ہے ‘‘۔ یہی عقیدہ اشعری کے زمانہ تک تھا۔پھر اس کے بعد شہرستانی اور جوینی کے دور میں بالکل جہمی فرقہ کی ڈگر پر چل پڑے۔ اس لیے علمائے کرام، طلباء اور عوام الناس کو چاہیے کہ وہ چھوٹے چھوٹے امورِ بدعات کو حقیر نہ سمجھیں جن کی وجہ سے انسان اہل سنت و الجماعت کے منہج سے خارج ہورہا ہو، اس لیے کہ بعد میں یہی معمولی بدعات بڑھ کر گمراہیوں کا