کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 67
بدعت سے اکثر طور پر توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔‘‘ ایسے ہی بدعت کے لوازم میں سے محدثات[دین میں نئی ایجادات واختراعات] کا شکار ہونا ہے جس کی وجہ سے گمراہیاں پھیلتی چلتی گئیں، اور وہ یہ گمان کرتے رہے کہ وہ حق پر ہیں۔ بدعات سے بچاؤ کی تدابیر 7۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((واحذر صغار المحدثات من الأمور، فإن صغیر البدع یعود حتی یصیر کبیراً، وکذلک کل بدعۃ أُحدثت في ہذہ الأمۃ، کان أولہا صغیراً یشبہ الحق فاغتر بذلک من دخل فیہا ثم لم یستطع الخروج منہا، فعظمت وصارت دیناً یُدانُ بہا، فخالف الصراط المستقیم، فخرج من الإسلام۔)) ’’چھوٹے چھوٹے بدعات کے امور سے بھی بچو۔ بیشک چھوٹی بدعتیں بڑھتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ بڑی ہوجاتی ہیں۔ ایسے ہی جو بدعت بھی اس دین میں پیدا ہوتی ہے، وہ شروع میں چھوٹی اور حق سے مشابہ ہوتی تھی(، جو بھی اس بدعت میں داخل ہوا، اس نے اس سے دھوکہ کھایا، پھر وہ اس سے نکلنے کی اس میں ہمت نہ رہی، وہ بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کا دین بن گئی، وہ جس پر چلتا ہے۔سو اس نے صراطِ مستقیم کی مخالفت کی، اور اسلام سے خارج ہوگیا)۔ ‘‘ شرح:…اس پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ نے بدعت سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں، ان میں سے: 1۔ چھوٹی بدعات میں جب سستی برتی جائے تو یہ بڑی بدعات کے ارتکاب کی راہیں کھولتی ہیں، اور یوں انسان ایک کے بعد ایک بدعت میں گِھرتا جاتا ہے۔یہ بدعت کے مفسدات میں سے ایک ہے۔بدعت کی مثال اس چنگاری کی سی ہے، جو الاؤ جلانے کے لیے کافی ہوسکتی ہے، یا جس سے گھر بار اور بازار بھی جل سکتے ہیں۔ اس لیے اس دروازے کو مکمل طور پر بند رکھنا چاہیے۔ 2۔ وہ تمام فرقے جن کااسلامی تاریخ میں ظہورہوا،وہ ایک ایک بدعت سے اور چھوٹے چھوٹے امور سے شروع کرتے ہیں، یا ان کی بدعت ایک دائرہ میں محدود ہوتی ہے۔ پھر خواہشات ان کو لیے اڑتی ہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق خبر دی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((و إنہا ستخرج من أمتي أقوام تتجاری بہم تلک الأہواء کما یتجاری الکلب بصاحبہ، فلا یبقی منہ عرق ولا مفصل إلا دخلہ))[1]
[1] قال المناوي: اسناد أحمد جید، رواہ أحمد (4/ 102برقم 16979)، والطبراني (9/ 377، برقم 885)، والحاکم (1/218برقم 443)، وأبو داؤد 4/ 19 برقم 4597)۔