کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 64
منہج پرہوں، اور وہ عوام جو ان کی اتباع کر رہے ہوں۔ لیکن ان تین بہترین صدیوں کے بعد فرقے اور ان کے پیروکار بڑھ گئے۔اس لحاظ سے ضروری ہے کہ سواد اعظم کے شرعی معنی کو پیش نظر رکھا جائے۔ اس لیے کہ فقط اکثریت کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اعتبار حق اور اس کی اتباع کا ہے۔
امورِ دین میں صحابہ کی مخالفت کفر ہے
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(جس نے اصحاب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت امور ِ دین میں سے کسی بھی چیز میں کی، اس نے یقیناً کفر کا ارتکاب کیا): کفر میں احتمال ہے کہ اس سے مراد کفر اکبر ہو، اور یہ بھی احتمال ہے کہ مراد کفر اصغر ہو۔ یہ سب مخالفت کے لحاظ سے ہے۔
ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہو، مگر وہ اسے گناہ بھی سمجھتا ہو، اور یہ گناہ اس درجہ کو نہ پہنچتا ہو کہ اس کی بنا پر یہ انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی انسان ایسے گناہ کا مرتکب ہو جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہ ہو، یا شریعت کو حقیر سمجھتا ہو، یا کسی گناہ کے کام کو اپنے لیے حلال سمجھتا ہو، جیسے کہ سود یا زنا، یا اس طرح کا کوئی اور گناہ۔ تو اس گناہ کی بنا پروہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے۔
مگر تکفیر(کفر کا فتوی لگانے کا)یہ قانون علی الاطلاق نہیں ہے۔ کسی پر کفر کا حکم اس وقت نہیں لگایا جاسکتا جب تک کفریہ بات کرنے والے کے متعلق تحقیق سے کفریہ بات ثابت نہ ہوجائے، اور اس میں کوئی تکفیر سے مانع بھی نہ ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ بیشک تکفیر کی شروط اور موانع ہیں۔ کبھی کسی متعین شخص کے حق میں کفر کی نفی کی جاتی ہے، اور مطلق تکفیر سے کسی متعین شخص کی تکفیر لازم نہیں آتی، صرف اس صورت کے کہ تکفیر کی پوری شروط پائی جائیں اور کوئی رکاوٹ یا مانع نہ ہو۔‘‘[1]
کفر کی اقسام
پھر بھی مصنف رحمہ اللہ کا کہنا:
((فمن خالف أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم في شيئٍ من أمر الدین فقد کفر۔))
’’سو جس نے اصحاب ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت امور ِ دین میں سے کسی چیزمیں کی، اس نے یقیناً کفر کا ارتکاب کیا۔‘‘
اس میں بذیل تفصیل ہے:
کفر دو قسم کا ہوتا ہے:
[1] مجموع الفتاوی 12/ 487۔