کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 63
عذر باقی نہیں رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب اللٰہ وسنۃ رسولہ))[1] ’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں تم ہر گز کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے جب تک ان کو مضبوطی سے تھام رکھوگے، وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔‘‘ خیر سواد اعظم کے ساتھ ہے مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(یہی لوگ جماعت ہیں، یہی سواد اعظم ہیں): رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہی اصل میں وہ جماعت ہیں جن کی راہ پر چلنے اور ان کا ساتھ دینے کا ہمیں حکم دیاگیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((خیر کم قرني، ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم)) [2] ’’تم میں سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں، اور پھر جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اور پھر جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کرام تھے۔ پھر ان کے ساتھ ملے ہوئے تابعین ہیں، اور ان کے ساتھ ملے ہوئے تبع تابعین ہیں۔ یہی تین زمانے فضیلت والے زمانے ہیں۔ یہ لوگ ہی اصل جماعت ہیں۔ بعد میں آنے والے لوگ ان کے تابع ہیں۔ سواد اعظم کا معنی مصنف رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’جماعت سواد اعظم ‘‘ہے۔ لفظی طور پر اس کے کئی معانی ہیں۔جب کہ اس سے مقصود اہل حق ہیں۔ اگرچہ اس کے معانی لفظی طور پر بڑی جماعت کے ہیں اور بسا اوقات یہی اکثریت مرادلی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجودبہت سارے لغت کے الفاظ ایسے ہیں جنہیں ان کے شرعی معنی میں محدود کیا جاتا ہے۔ سلف صالحین کے ہاں ’’سواد اعظم ‘‘ کے شرعی معنی درج ذیل ہے: 1۔ ’’جن کی قدر بڑی ہو‘‘اور وہ سلف ِ صالحین، ائمہ دین ہیں، اور جو کوئی عام مسلمانوں میں سے ان کی پیروی کرے۔اس لیے کہ وہ عوام الناس جو فطرت پر قائم ہوں، وہی کثرت تعداد والے ہیں۔ سو اس اعتبار سے اس کا اطلاق بسا اوقات عموم مسلمین پر بھی ہوتا ہے۔یعنی سواد اعظم وہ ہیں جو ظاہری طور پر کسی بدعت کا شکار نہ ہوں۔ 2۔ اس کا اطلاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر، تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ یہی لوگ حقیقت میں سواد اعظم اور کثرت عدد والے ہیں اور امت میں ان پر اعتبار بھی اکثر کیا جاتا ہے۔اور عوام الناس ان آئمہ دین کے تابع ہیں۔ اس لحاظ سے سواد اعظم خیر القرون کے تین زمانوں کے وہ لوگ ہوں گے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ اور
[1] موطأ امام مالک1594، و مسند أحمد بن حنبل۔ [2] متفق علیہ، البخاری (1654) مسلم (1679)۔