کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 62
کرتا ہے وہ دین اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔ کسی بھی انسان پر شروع میں جب اپنے نفس کی مخالفت گراں گزرتی ہے تووہ اتباع دین میں سستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ پھر وہ اپنی خواہشات کے پیچھے ایسے پڑ جاتا ہے کہ دین اسلام سے خارج ہوجاتا ہے اور اس کا سارادین اس کی خواہشات بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اَفَرَاَیْتَ مَنْ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہِ ِشَاوَۃً فَمَنْ یَّہْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ ﴾(الجاثیہ:23)
’’(اے پیغمبر)کیا تو نے اس شخص کودیکھا جس نے اپنی خواہش کواپنا خدا بنا لیا ہے اور اللہ نے جیسے اسکے علم میں تھا اس کوگمراہ کردیاہے اس کے کان اوردل پر مہر کردی ہے اوراس کی آنکھ پر اندھیری ڈال دی ہے تو اللہ تعالیٰ نے جب اس کو گمراہ کیا انہیں کون اس کو راہ پر لاسکتاہے کیا تم غور نہیں کرتے۔ ‘‘
خواہشات نفس بھی ایک بہت بڑا سرکش طاغوت ہے۔ جس کی مخالفت میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(تمہارے لیے کوئی حجت نہ ہو گی):چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کو واضح کردیا ہے۔ اب اس کی مخالفت کرنے والے کے لیے کوئی حجت نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ وضاحت او ربیان کے بعد گمراہ ہوا ہے۔ وہ جاہل نہیں ہے کہ اس کا عذر معتبر مانا جائے۔بلکہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جاننے والا، علماء کے اقوال کی معرفت رکھنے والا ہے۔ اس کے بعد جو چیز اس کی طبیعت کے موافق ہو، اسے قبول کرلینا اور ناموافق کو ترک کردینا یہی خواہش ِ نفس کی پوجاہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، ارشاد الٰہی ہے:
﴿وَلَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ﴾(ص: 26)
’’اور(نفس کی)خواہش پر مت چل(ایسا نہ ہو) وہ تجھ کوخدا کے(ٹھیک)رستے سے بہکادے بے شک جولوگ اللہ کی راہ سے(حق اورانصاف سے) بہک جاتے ہیں ان کو سخت سزا ملے گی اس وجہ سے کہوہ حساب کادن بھول گئے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لایؤمن أحدکم حتی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ۔)) [1]
’’ تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہشات اس چیز کے تابع نہ ہوجائیں جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور کو بیان کردیا ہے۔کوئی ایسی چیز مخفی نہیں رہ گئی جس کی امت کو ضرورت ہواور اس کے متعلق وضاحت اور بیان موجود نہ ہو۔ ہدایت و گمراہی کی راہیں جدا جدا ہوچکی ہیں۔ اب گمراہ ہونے والے کا کوئی
[1] بغوی شرح سنۃ۔صححہ النووي في (الأربعین)۔