کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 60
﴿اَ لْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾
(المائدۃ: 3)
’’آج ہم نے آپ کے لیے آپ کا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں آپ پر پوری کر دیں اورآپ کے لیے اسلام کو دین پسند فرمایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس وقت تک اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں بلایا جب تک یہ دین مکمل نہیں ہوگیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس دین کی حفاظت کاذمہ بھی خود ہی لیا ہے، فرمایا:
﴿ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُونَ﴾(الحجر: 9)
’’ ہم نے ہی اس کتاب کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس دین کی حفاظت کا تھا تو اس کے لیے بطور اسباب ایسے باہمت اور با صفا اورمخلص لوگوں کو بھی پیدا کیا جنہوں نے اپنا مال و جان اور گھر بار قربان کرکے اس دین کی دعوت کو زندہ و تابندہ رکھا۔
اس صاف و شفاف منہج سے ہٹ کر وہی لوگ چل سکتے ہیں بد بختی اور شقاوت جن کا مقدر ہو۔یہ ٹیڑھا منہجِ فلسفہ، متکلمین کے منہج، اور تقدیم العقل علی النقل، خواہشات کے مطابق فیصلہ کرنا، اور ایسے ہی شخصی آراء کو شامل ہے۔ جیسا کہ صوفیاء کے طریق کار: کشف، ذوق، اورو لی کے علوم، جنہیں کبھی کبھار الہام، کرامات یااس طرح کا کوئی بھی دیگر نام دیا جاتا ہے۔
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ سب خواہشات نفس ہیں۔ ان کے پیچھے پڑ کر دین سے نہ نکل جائیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ہُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُمُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ﴾(آل عمران:7)
’’وہی تو ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی۔ جس کی بعض آیتیں محکم ہیں(اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں۔ تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مرادِ اصلی کا پتہ لگائیں۔‘‘
اس لیے کہ جو بھی دین کو کتاب وسنت سے ہٹ کر لوگوں کی آراء سے لے گا وہ دین سے نکل جائے گا۔یہ ان لوگوں سے متعلق ہے جن کے پاس کو ئی تأویل نہ ہواور جس انسان کے لیے حق اور باطل کا التباس ہوگیا ہو، اور وہ یہ گمان کرتا ہوکہ وہ اصل ِ دین سے لے رہا ہے اور مصادر دین پر اعتماد کررہا ہے۔، حالانکہ وہ اپنے عقل کو اساس بنا کر پھر اس کی حمایت اور تائید میں نصوص تلاش کررہا ہواورایسے ہی شیطانی وسوسوں کو علوم ولی کا نام دیا جاتا ہے اور جو انسان تأویل کی وجہ سے ایسے کررہا ہووہ اس وقت تک کفریہ کام کرنے کی وجہ سے دین سے خارج نہیں ہوگا جب تک اس پر حجت نہ قائم