کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 57
’’ اور یقینا ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا،اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں۔‘‘
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ترکتکم علی البیضاء۔ لیلہا کنہارہا، لا یزیغ عنہا بعدي إلا ھالک، ومن یعش منکم فسیری اختلافاً کثیراً، فعلیکم بما عرفتم من سنتي و سنۃ خلفاء الراشدین المہدیین، عضوا علیہا بالنواجذ))[1]
’’ میں تمہیں کھلی راہ پر چھوڑ کر جارہا ہوں، جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ میری بعد اس سے کوئی ہٹ نہیں سکتا سوائے ہلاک ہونے والے کے اور تم میں سے جو کوئی زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا۔ تم پر واجب ہے کہ میری جس سنت کو پہچان لو، اور میرے ہدایت یافتہ و تربیت یافتہ خلفاء کی سنت کو پہچان لو(اس کی اتباع اپنے اوپر لازم کر لو)، اور اسے اپنی داڑھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو۔‘‘
دوسری حدیث میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن الحلال بین وإن الحرام بین، وبینہما أمور مشتبہات، فمن التقی الشبہات فقد استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع في الشبہات وقع في الحرام))[2]
’’ بیشک حلال بھی واضح ہے اور بیشک حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان چند متشابہ امور ہیں۔جو ان متشابہات سے بچا سو اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کرلی، اور شبہات میں واقع ہوا سو وہ حرام میں جا گرا۔‘‘
اس سے مراد یہ ہے کہ فقط سنت کے ظاہر(علم و معرفت)ہوجانے سے حجت قائم ہوجاتی ہے۔اب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نجات کے لیے کتاب و سنت پر عمل کریں، اور کتاب و سنت کے صحیح احکام کو سیکھیں اور ان کا علم حاصل کریں۔ علمائے کرام کا فرض بنتا ہے کہ وہ حق بات کو لوگوں تک پہنچائیں، اور ان کے لیے کتاب و سنت کے احکام واضح کریں تاکہ کو کوئی ابہام یا اشکال باقی نہ رہے۔ یہی سنت کا ظاہر ہونا ہے۔
الحمدللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کو ظاہر کیا، اور آج تک سنت ظاہر اور غالب ہے، اور قیامت تک ایسے ہی رہے گی۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر دی ہے:
((لَا تَزَالُ طَائِفَۃً مِّنْ أُمَّتِي عَلَی الْحَقِ ظَاہِرِیْنَ حتَّی یَأتِيْ أَمْرُ اللّٰہِ وَ ہُمْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِ))[3]
[1] سنن ابن ماجۃ، باب: اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، ح43۔ صححہ الألباني۔
[2] متفق علیہ،بخاری 1946، 1599، من حدیث نعمان بن بشیر۔
[3] رواہ البخاري ح 6881، مسلم ح: 1920۔