کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 56
گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ﴾(آل عمران: 110)
’’ تم بہترین امت ہو، تمہیں لوگوں کے لیے نکالاگیا ہے، تم اچھی بات کا حکم دیتے اور بری بات سے منع کرتے اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَوْلَا یَنْہٰاہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَصْنَعُوْنَ﴾(المائدۃ: 63)
’’ان کے مشائخ او رعلماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے بلا شبہ وہ بھی برا کرتے ہیں۔‘‘
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ، وإن لم یستطع فبلسانہ، و إن لم یستطع فبقلبہ، وذالک أضعف الإیمان)) [1]
’’جوکوئی تم میں سے برائی کی بات دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنی زبان سے منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل میں برا جانے، اور یہ ایمان کا کم ترین درجہ ہے ‘‘۔
2۔ اس پیرائے میں جس مخالفت یا اختلاف پر رد کیا گیا ہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے منہج اور ان کی راہ سے انحراف ہے۔ علمی مسائل اور احکام میں اختلاف نہیں۔ بلکہ علمی اختلاف کے باے میں واضح حدیث موجود ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ مجتہد کا اجتہاد اگر درست ہے تو اس کے لیے دہرا اجر ہے، اور اگر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو گئی ہو اس پر اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘[2]
ارشاد الٰہی ہے:
﴿ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾(الحدید: 25)
[1] مسلم:186۔
[2] بخاری کتاب الاعتصام، ح: 6919۔ مسلم کتاب الأقضیۃ، ح: 1617۔