کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 55
شرح:…اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حق اور باطل کو واضح کردیا ہے، جس کی تفصیل کتاب و سنت میں موجود ہے۔ اس صورت میں اب کسی کا کوئی عذر باقی نہیں رہا۔ یہ انسان کی اپنی کمی ہے کہ اس نے کتاب و سنت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اہل علم سے رجوع کیا۔ مصنف رحمہ اللہ کافرمان:(اس نے گمراہی کو ہدایت سمجھ اختیار کیا): اس جملہ میں تاکید ہے کہ فقط گمان اور خیالات حق بات سے مستغنی نہیں کرسکتے اور نہ ہی حق کے مقابلہ میں معتبر مانے جاسکتے ہیں۔ہر قوم گمراہی کو ہدایت سمجھ کر ہی اختیار کرتی ہے۔اگر وہ اسے گمراہی سمجھ لیں تو اسے اختیار ہی نہ کریں۔فرمان ِ الٰہی ہے: ﴿فَرِیْقًا ہَدٰی وَ فَرِیْقًا حَقَّ عَلَیْہِمُ الضَّلٰلَۃُ اِنَّہُمُ اتَّخَذُوا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُّہْتَدُوْنَ﴾(الأعراف: 30) ’’اسی نے ایک گروہ(مومنوں) کو راہ پر لگایا اور ایک گروہ(کافروں) کو گمراہ کیا جن کی تقدیر میں گمراہی لکھ دی گئی تھی انھوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطانوں کو اپنا دوست بنایا اور(اس پر بھی) وہ سمجھتے ہیں کہ ہم راہ پر ہیں۔‘‘ جب بھی انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ شیاطین ِ جن و انس کو اپنا مولی و کارساز بنائے گا، اور ان کی راہ پر چلے گا، تو یہ شیاطین اسے یہی یقین دلاتے رہیں گے کہ وہ حق پر ہے، اور اس پر اسے کاربند رہنا چاہیے۔ چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاِنَّہُمْ لَیَصُدُّونَہُمْ عَنْ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ مُہْتَدُوْنَ ﴾(الزخرف: 37) ’’اور بیشک(یہ شیطان)ان کافروں کو(خداکی) راہ سے ورکتے ہیں اور کافر سمجھتے ہیں کہ وہ ٹھیک رستے پر ہیں۔‘‘ صرف گمان کچھ کام نہیں آتا مصنف رحمۃ اللہ علیہ کافرمان:(حجت قائم ہوچکی ہے، اور عذر ختم ہوچکاہے)اس سے مراد یہ ہے کہ جو انسان گمراہی کا ارتکاب کرتا ہے، اور وہ یہ گمان کرتا ہے کہ یہ ہدایت کا کام ہے۔ بسا اوقات وہ اس گمراہی کے کام کی وجہ سے ملت ِ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، یا اس سے وہ کافر نہیں ہوجاتا۔ لیکن اہل حق-قدوۃ-کی موجودگی میں اس کا کوئی عذر معتبر نہیں ہوگا۔کیونکہ فقط گمان ہی کسی چیز میں کافی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ بہت سارے اہل بدعت جن بدعات اور خرافات کا شکار ہیں، وہ ان کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں کہ یہ حق ہے۔ اگرچہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو یہ جانتے بھی ہیں کہ فلاں کام بدعت ہے لیکن پھر بھی عمداً اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس اثر میں چند ایک اہم مسائل ہیں: 1۔ ان لوگوں پر رد ہے جن کی دعوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی راہ اور ان کے منہج سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے کہ حق بات واضح ہے اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر کے ذریعہ حق کو واضح کیا جارہا ہے، اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے