کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 54
نیاز، مائی فاطمہ کی صحن، رجب کے کونڈے۔ یا غیر اللہ کے لیے ذبح کرنا، غیر اللہ کی عبادت کرنا۔ انہیں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارنا،مزاروں پر دھاگے باندھنا اور جھنڈے چڑھانا،اور وہاں لے جاکر کھانے تقسیم کرنا، جنہیں ہمارے علاقے میں ڈولی کہا جاتا ہے۔اور اس سے مقصود مردوں کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ایسے ہی جمعرات کو مردوں کے حاضر ہونے کا عقیدہ رکھ کر ان کے لیے یا ان کے نام پر کھانے پکا کرتقسیم کرنا، مردوں کو اپنی مدد کے لیے بلانا، اور ان کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنا۔شفاعت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار، عذاب قبر کا انکار، اور امور ِ آخرت اور تقدیرکا انکار، قرآن کو مخلوق کہنا۔اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات و انکار۔ یہ تمام عقیدہ کی بدعات ہیں، جن کی وجہ سے ایمان ختم ہوجاتا ہے۔ جب کہ بعض بدعات ایسی ہیں جن کی وجہ سے انسان کافر تو نہیں ہوتا مگر اس کا ایمان کمزور ہوجاتا ہے اور ایسا انسان خطرہ میں رہتا ہے۔ ان بدعات کی مثال: نماز کے بعد اجتماعی ذکر، آذان سے پہلے درود(جب کہ آذان کے بعد مسنون درود پڑھنا ثواب ہے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آنے پر انگوٹھے چومنا(اس کی کوئی اصل دلیل کتاب و سنت میں نہیں ہے)، اور اس طرح کی دیگرسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بدعات ہیں، جن کا شکار اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ بھی ہیں، ان بدعات جن کے اعداد و شمار کا موقع یہ نہیں ہے۔ مگر انسان کو دین کا علم حاصل کرنا چاہیے، تاکہ وہ سنت اور بدعت کی پہچان حاصل کرے، اور بدعت سے بچ کر رہ سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے، آمین۔ گمراہی کا عذر باقی نہیں 4۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((قال عمر بن خطاب رضی اللّٰه عنہ:((لا عذر لأَحدٍ في ضلالۃ رکبہا حسبہا ہدی[1]، ولا في ہدی ترکہ حسبہ ضلالۃ، فقد بُیِّنت الأمور وثبتت الحجۃ، وانقطع العذر))۔ وذلک أن السنۃ و الجماعۃ قد أحکما أمر الدین کلہ، وتبین للناس، فعلی الناس الإتباع۔)) ’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کسی کا اس بات میں کوئی عذر نہیں ہوگا کہ اس نے گمراہی کو ہدایت سمجھ کر اختیارکرلیااور نہ ہی ہدایت کو گمراہی سمجھ کر چھوڑ دینے میں کوئی عذر ہوگا۔کیونکہ امور کی وضاحت کردی گئی ہے۔ حجت قائم ہوچکی ہے، اور عذر ختم ہوچکاہے۔یہ اس لیے ہے کہ اہل سنت والجماعت(اصحاب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)نے پورے دین کے تمام معاملات کو خوب واقف کروادیا، لوگوں کے سامنے اس کی پوری وضاحت کردی،(اب تو) لو گوں کے لیے صرف اتباع ہی باقی ہے۔‘‘
[1] أخرجہ ابن بطۃ رحمہ اللّٰه في ’’الإبانۃ الکبری‘‘ (162) من طریق الأوزاعی۔ وأنہ بلغہ أن عمر بن الخطاب ذکرہ ۔ واسنادہ منقطع اورامام مروزی رحمہ اللہ نے اسے ’’السنۃ‘‘ میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں: ((لا عذر لأحدٍ بعد السنۃ في ضلالۃ رکبہا، یحسب أنہا ہدی)) ’’ سنت آجانے کے بعد کسی کا اس بات میں کوئی عذر نہیں ہوگا کہ اس نے گمراہی کو ہدایت سمجھ اختیار کیا۔‘‘