کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 539
العمی۔وقال الفضیل ابن عیاض(رحمہ اللّٰه): ’’ آکل مع یہودي و نصراني ولا آکل مع مبتدع، و أحب أن یکون بیني و بین مبتدع حصن من حدید‘‘[1]
وقال الفضیل ابن عیاض(رحمہ اللّٰه):((إذا علم اللّٰه من الرجل أنہ مبغِض لصاحب بدعۃ، غفرلہ، وإن قل عملہ[2] ولا یکن صاحب سنۃ یماليء صاحب بدعۃ إلا نفاقاً[3]۔ ومن أعرض بوجہہ عن صاحب بدعۃ، ملأَ اللّٰه قلبہ إیماناً، ومن انتہر صاحب بدعۃ آمنہ اللّٰه یوم الفزع الأکبر، ومن أہان صاحب بدعۃ، رفعہ اللّٰه في الجنۃ مائۃ درجۃ، فلا تکن صاحب بدعۃ في اللّٰه أبداً۔‘‘))
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جو بدعتی کی ساتھ بیٹھا اسے اندھاپن وراثت میں ملتا ہے۔‘‘
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میں یہودی اور عیسائی کے ساتھ کھاتا ہوں، مگر مبتدع کے ساتھ نہیں کھاتااور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ میرے اور بدعتی کے درمیان لوہے کا قلعہ ہو۔‘‘
حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کے بارے میں جان لیتے ہیں کہ وہ اہل ِ بدعت سے بغض رکھتا ہے، اس کے گناہ بخش دیتے ہیں۔اگرچہ اس کے اعمال کم ہی کیوں نہ ہوں اور اہل سنت مبتدع سے رواداری نہیں برت سکتا مگر نفاق سے۔‘‘اور جو اپنے چہرے کو مبتدع سے موڑ لے، اللہ تعالیٰ اس کے دل کو ایمان کے نور سے بھر دیتے ہیں۔اور جس نے مبتدع کو جھڑکا، اللہ تعالیٰ اس کو بڑے خوف کے دن امان دیں گے اور جو مبتدع کی اہانت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سودرجے بلند کردیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کبھی بھی مبتدع نہ بن جانا۔‘‘
شرح: … اس سے مقصود یہ ہے کہ اس کے دل کو اندھا کرلیا جاتا ہے، اور اس سے بصیرت چھین لی جاتی ہے، وہ حق و باطل، گمراہی و ہدایت اور اچھے اور برے میں تمیز نہیں کرپاتا۔اس کی آنکھیں، اس کا دل، سوچ و فکر اوردماغ کوئی بھی چیز اسے کچھ بھی کام نہیں آتی۔سنت و شریعت کے نافرمان کا یہی بدلہ ہونا چاہیے تھا کہ اس کا اپنا جسم اور اعضاء بھی اس کے نافرمان ہو جائیں۔
فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا فرمان:(میں یہودی اور عیسائی کے ساتھ کھاتا ہوں…):
اس لیے کہ یہودی اور عیسائی کا پتہ ہے کہ وہ ایک دوسرے دین کے پیروکار ہیں جوکہ ہمارے دین کا مخالف ہے۔
[1] أخرجہ اللالکائيفي السنۃ (1149)، وابن بطہ في’’الإبانۃ الکبری‘‘ (470)،أخرجہ ابو نعیم في ’’الحلیۃ ‘‘(8/103)،و إسنادہ صحیح۔
[2] حدیث کا یہ آدھا حصہ ابو نعیم نے ’’الحلیۃ ‘‘(8/103) میں نقل کیاہے:وہاں روایت کے یہ الفاظ ہیں: ’’…میں امید کرتا ہوں کہ اس کی مغفرت کردی جائے گی۔‘‘ و إسنادہ صحیح۔
[3] أخرجہ ابن بطہ في’’الإبانۃ الکبری‘‘ (429)،أخرجہ ابو نعیم في ’’الحلیۃ ‘‘(8/104)بإسناد لا بأس بہ ۔