کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 537
دیکھیں جو لوگ ہم سے زیادہ دین سمجھنے والے تھے، او ردعوت ِ دین کے ہم سے بڑھ کر حریص تھے، وہ کیسے آپ کو منع کررہے ہیں کہ اہل بدعت کے ساتھ کسی بھی مصلحت کے پیش نظر اٹھنا بیٹھنا نہ رکھاجائے۔ بدعتی کی تعظیم مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((وقال الفضیل ابن عیاض(رحمہ اللّٰه): ’’ من عظّم صاحب بدعۃ فقد أعان علی ہدم الإسلام۔ ومن تبسم في وجہ مبتدع، فقد استخف بما أنزل اللّٰه عزوجل علی محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم، ومن زوج کریمتہ من مبتدع، فقد قطع رحمہا، ومن تبع جنازۃ مبتدع، لم یزل في سخط اللّٰه حتی یرجع۔‘‘)) ’’حضرت فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جس نے بدعتی کی تعظیم کی، اس نے اسلا م کو ختم کرنے میں مدد کی[1]، او رجو کوئی بدعتی سے مسکرا کر ملا، یقیناً اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے قرآن کو کم تر سمجھا، اور جس نے اپنی بیٹی کسی مبتدع سے بیاہ دی، تو اس نے اس کے ساتھ قطع رحمی کی۔ اور جو مبتدع کے جنازہ کے ساتھ چلا، وہ برابر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واپس پلٹ جائے۔‘‘[2] شرح: …(فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان):((جس نے بدعتی کی تعظیم کی…)): اس لیے کہ بدعت اسلام کی ضد ہے۔ جب آپ بدعتی کو آشیرباد(داد شجاعت) دیں گے تو آپ اسلام کو مٹانے کے لیے اس کی مدد کریں گے۔ اس لیے کہ اسلام سنت ہی ہے، اور سنت ہی اسلام ہے۔ انسان پر یہ واجب ہے کہ وہ اہل بدعت کی تعظیم و تکریم نہ کرے، نہ ہی ان کی تعریف کرے، نہ ہی لوگوں میں ان کی بڑائی اور مدح بیان کرے۔ ہمارے بھائیوں کو سوچنا چاہیے جو آج کل کفار(یہود و نصاری اور ملحدین) کی تعریفوں سے نہیں تھکتے، اور ان کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ او رانہیں ایک ترقیاتی اور جدت پسند قوم کے طور پر پیش کرتے ہیں، اورمسلمانوں کو پسماندہ اور بیک ورڈ، پتھر کے دور کے لوگ کہتے ہیں۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کا خوف کریں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی تحقیر نہ کریں اور نہ ہی ان پر دوسروں لوگوں کو کسی بھی طرح ترجیح دیں خواہ زبانی ہی حد تک کیوں نہ ہو۔کیونکہ ایسا کرنا بہت بڑا اور کھلا ہوا نفاق ہے، جس سے اسلام اورمسلمانوں کو نقصان ہورہا ہے۔ (فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان):((جو کوئی بدعتی سے مسکرا کر ملا …)):
[1] اس معنی میں ایک مرفوع حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ظاہرہوتا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، صحیح نہیں ہے ۔ جیسے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’السلسلۃ الضعیفۃ‘‘ (1862) میں وضاحت کی ہے۔ [2] أخرجہ ابو نعیم في ’’الحلیۃ ‘‘(8/103)وابن جوزی في ’’ تلبیس إبلیس ‘‘(ص16)، قطع رحمی تک اس کی اسناد صحیح ہے ۔ لیکن ان دونوں کتابوں میں مسکرا کر ملنے کا ذکر نہیں ہے۔