کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 534
بدعت سے متأثر نہ ہوجائیں۔تو پھر کوئی دوسرا کس باغ کی مولی ہے کہ وہ اپنے علم و عقیدہ پر نازاں و فرحاں ہو اور ایسے لوگوں سے دوستیاں لگاتا پھرے جن کا بدعتی ہونا صاف ظاہر ہے۔ جب انسان لوگوں کی چکنی چپڑی باتیں سنتا ہے تو بتقاضا بشریت وہ ان باتوں سے متأثر ہو ہی جاتا ہے۔ اہل بدعت کے پاس ایسی شیطانیں چالیں اور پھندے ہوتے ہیں،ان کا بات کرنے کا انداز ایسا شیریں اورپرکشش ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا اقرار کرکے اپنے نبی کو ایسے لوگوں کی باتیں سننے سے منع کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَاِنْ یَقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌکَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ قَاتَلَہُمْ اللّٰہُ اَنَّی یُؤْفَکُوْنَo﴾(المنافقون: 4) ’’اور(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) جب تو ان منافقوں کو دیکھتاہے تو ان کے ڈیل ڈول بھلے لگتے ہیں اوراگر وہ کوئی بات کریں توآپ ان کی بات(اچھی طرح)سنتے ہیں وہ(آدمی نہیں ہیں)گویاکہ وہ لکڑیاں ہیں جو ٹیک لگاکر رکھی جائیں جہاں زورکی کوئی آوازہوئی وہ سمجھتے ہیں ہم للکارے گئے(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) بڑے دشمن(تیرے) یہی لوگ ہیں ان سے بچارہ خدا کی مار ان پر کدھر بہکے جار ہے ہیں۔‘‘ اہل بدعت کے بارے میں کسی سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی انسان ان کی باتوں کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردے۔ بلکہ چاہیے کہ انسان اپنے عقیدہ و ایمان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ چوکنا اور بیدار رہے۔ ---------------------------------------------------- ---------------------------------------------------- بدعت پر محرومی مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ((وقال الفضیل ابن عیاض(رحمہ اللّٰه): ’’من جالس صاحب بدعۃ لم یؤت الحکمۃ۔‘‘ وقال الفضیل ابن عیاض(رحمہ اللّٰه): ’’ لا تجالس مع صاحب بدعۃ، فإني أخاف أن تنزل علیک اللعنۃ۔‘‘)) ’’فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جو اہل بدعت کے ساتھ مجلس کرتا ہے، اسے حکمت نہیں دی جاتی۔‘‘[1] فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اہل بدعت کے ساتھ مجلس نہ کرنا،میں ڈرتا ہوں کہ تم پر بھی لعنت نازل ہو۔‘‘[2] شرح: … حکمت نہ دیے جانے سے مرادیہ اسے دین کی سمجھ سے محروم کردیا جانا ہے، اور اس طرح وہ انسان
[1] أخرجہ اللالکائيفي السنۃ (263- 1149)، وابن بطہ في’’الإبانۃ الکبری‘‘ (439)، والبیہقي في ’’ الشعب‘‘ (7/64)۔ [2] أخرجہ اللالکائيفي السنۃ (262)، وفي’’الإبانۃ الکبری‘‘ (441-451)، و إسنادہ صحیح۔