کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 53
اللہ تعالیٰ کا دین مکمل ہوچکا ہے، اس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔ صرف بدعت اور سنت کی پہچان کر اور حق کی معرفت حاصل کرنے کے لیے دین کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ انسان برائی سے بچ سکے اور بھلائی پر کاربند رہے۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:((وکل بدعۃ ضلالۃ)) ’’حدیث کا یہ جملہ کتابوں میں ایسے ہی ثابت ہے:((کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَّ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِي النَّارِ))[1] حدیث میں تمام بدعات کو گمراہی کہا گیاہے۔ اس میں کسی بدعت ِ حسنہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ بدعت میں کبھی کوئی چیز حسن یا خیر و بھلائی کی ہو ہی نہیں سکتی۔ بعض علمائے کرام نے کہا ہے: بدعت ہر وہ چیز ہے جس کے کرنے کے اسباب تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں موجود تھے، مگر انہوں نے ایسے نہیں کیا، تو اب اس فعل کا کرنا بدعت ہے۔ خواہ یہ اعتقادی بدعت ہو عملی۔ایسا کرنے کی وجہ ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے راہ نکالنا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دور میں نہیں تھے، مگر بعد میں پیش آئے۔ بدعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق اعتقاد ہو کہ ایسا کرنا سنت یا شریعت کا حصہ ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہیں، اور دین کی نصرت یا ضرورت کے لیے کوئی کام کیا جارہا ہے تو اسے بدعت نہیں کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر: آذان کے لیے لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر کوئی بھی یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ آذان دینے کے لیے آلہ تجھیر بالصوت(لاؤڈ سپیکر) کا ہونا ضروری ہے۔ مگراس کا استعمال حق کی آواز کو دور تک پہنچانے کے لیے مدد گار ہے۔ اس لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری مثال:… بعض علاقوں میں آذان دینے سے پہلے ایک خاص قسم کا درود پڑھنے کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس پر بڑے بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ حالانکہ یہ درود بھی خود ساختہ ہے۔ اس کے مذکورہ الفاظ اپنی طرف سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ اس کے اسباب ہونے کے باوجود سلف ِ صالحین میں سے کسی ایک نے بھی ایسے نہیں کیا، اور نہ ہی کتاب وسنت میں اس کی کوئی دلیل ہے۔ اب اسے سنت یا شریعت سمجھ کر پڑھنا بدعت ہے۔ فافہم مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(گمراہی اوراس پر چلنے والے سب جہنمی ہیں)۔ گمراہی والے یا تو اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں ہونگے یا پھر اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ اس لیے کہ تمام بدعات ایک ہی درجہ میں برابر نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض بدعات ایسی ہیں جن کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اور دین میں اس کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔ جیسے: غیر اللہ سے(ما فوق الاسباب) مدد مانگنا، انہیں اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا، یا غیر اللہ کی نذر ماننا، جیسے نیاز ِ حسین، گیارھویں، پیر بابا کی
[1] أخرجہ النسائي في المجتبی‘‘ کتاب الجمعۃ باب: کیفیۃ الجمعۃ۔3/188 ۔و البیہقی في ’’الأسماء و الصفات‘‘ (1/145)، من حدیث جابر بن عبد اللّٰه وصححہ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللّٰه في ’’الفتاوی الکبری‘‘ (3/163)۔