کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 52
اس اثر سے استدلال کی وجہ یہ ہے کہ جن دلوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بہترین ہونے کا فیصلہ کرلیا ہو اور وہ حق پانے سے رہ جائیں اور ان کے بعد کے لوگ حق پاکر کامیاب ہوجائیں، یہ محض احمقانہ سوچ اور بد نیتی اور حسد پر مبنی بات ہے۔
نیز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اگر کوئی کسی راہ پر چلنا چاہتا ہو تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی راہ کو اپنے لیے راہنما بنائے۔ وہ لوگ اس امت کے پاکیزہ ترین دلوں والے تھے، علم میں بہت گہرے اوربہت کم تکلف برتنے والے، ہدایت پر بڑے پختہ ترین، اور اچھے حال والوں میں سے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ومحبت اور اپنے دین کی نصرت کے لیے چن لیا تھا۔ ان کے فضائل کو جانیں، اور ان کی راہ پر چلیں، بیشک یہ لوگ صحیح حق اور صراط مستقیم پر تھے۔‘‘[1]
سو وہ لوگ جو کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں، اور گالیاں دیتے ہیں، وہ حقیقت میں چاہتے یہ ہیں کہ وہ کس طرح اسلام کی بنیاد کو منہدم کردیں۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان میں کلام کرنے اور ان کی شان میں تنقیص کرنے سے ان کی قدر و قیمت گر جاتی ہے۔ پھر اس صورت میں ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کوئی واسطہ نہیں رہ جاتا۔اور یہی ان لوگوں کی چاہت ہے کہ سابقین اولین کے ساتھ ہمارا تعلق اور واسطہ ختم کردیں۔تاکہ امت گمراہ ہوجائے۔ اگر ایسے نہ ہو تو پھر وہ کون سا سبب ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ آج بھی صحابہ کرام سے بغض رکھتے ہیں، اور انہیں گالی دیتے ہیں۔
بدعت کی حقیت اور انجام
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اورہر بدعت گمراہی ہے)۔ عمومِ حدیث سے استدلال ہے جو کہ ہر قسم کی بدعت کو شامل ہے۔بدعت عبادات، اعتقادات اور اقوال میں سے ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہ ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
((من أحدث فی أمرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد)) [2]
’’ جس نے ہمارے اس کام(یعنی دین) میں نئی چیز داخل کی،جو اس دین میں نہیں تھی، وہ مردود ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إیاکم و محدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، و کل بدعۃ ضلالۃ)) [3]
’’ اپنے آپ کو(دین میں)نئی ایجاد سے بچاؤ، بیشک ہر نئی ایجاد کردہ شے بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
[1] التمہید لابن عبد البر 2/ 96۔
[2] بخاری2550۔مسلم 1718۔
[3] ابو داؤد 4607، الترمذی 2676۔ صحیح ۔