کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 518
((أبو بکر في الجنۃ، وعمر في الجنۃ، وعثمان في الجنۃ، وعلی في الجنۃ، وطلحۃ في الجنۃ، والزبیر في الجنۃ، وعبد الرحمن في الجنۃ، وسعد في الجنۃ، وسعید بن زید في الجنۃ، وابو عبیدہ بن جراح في الجنۃ))[1]
’’ أبو بکر-الصدیق رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اورعمر-بن خطاب رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اورعثمان-بن عفان رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے۔اور علی بن-ابی طالب رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، ا ورطلحہ-رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے۔ اورزبیر-جنت میں ہے، اورعبد الرحمن-بن عوف رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اور سعد-بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اورسعید بن زید رضی اللہ عنہ جنت میں ہے، اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنت میں ہے۔‘‘
ان لوگوں کے لیے ہم بھی جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں جن کے جنتی ہونے کی گواہی جناب الصادق المصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے دی ہے اور اس میں ذرا بھر بھی شک نہیں کرتے، اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تاویل کرتے ہیں۔ نہ ہی ان میں سے کسی ایک شخص کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی حسد و بغض اور کینہ رکھتے ہیں۔ کیونکہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور سچی زبان سے جنتی ہونے کی ضمانت مل چکی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا انعام ہے، وہ جس کو چاہے اس سے نواز دے۔
صرف ان لوگوں کو اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے جو واضح احادیث رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے ہیں، اور ان بزرگ ہستیوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام
165۔مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((ولا تفرد بالصلاۃ علی أحد إلا لرسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وعلی آلہ فقط۔))
’’اور انفرادی طور پر کسی پر درود(دعائ)نہیں بھیجا جائے گا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے۔‘‘
شرح: … ’’الصلاۃ‘‘ کا لغوی معنی ہے دعا کرنا اور اس کا شرعی معنی ہے: ’’وہ عبادت جو تکبیر(اللہ اکبر کہنے) سے شروع ہوتی ہے، اور تسلیم(السلام علیکم کہنے)پر ختم ہوتی ہے۔ جو کہ قیام، قرأۃ، رکوع، سجدہ قعدہ تسبیح و تکبیر پر مشتمل ہوتی ہے۔
جب آل اور اصحاب دونوں لفظ اکٹھے بولے جائیں تو آل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہوتے ہیں، اور اصحاب سے مراد آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ہوتے ہیں۔صحابی قرابت دار ہو بھی سکتا ہے او رنہیں بھی ہوسکتااور جب ان دونوں لفظوں(آل اور اصحاب) کو علیحدہ علیحدہ بولا جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے معانی کو شامل ہوتے ہیں۔
[1] رواہ أحمد 1/ 193۔ الترمذی 3747۔ مختصر الشریعۃ ص 267،و عبدالرزاق في المصنف 1176۔