کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 517
یہاں تک کہ تم لوگ اس راہ پر چلو۔‘‘[1]
جو کوئی ان تینوں(پہلے تین خلفاء) کو ان کی(باقی) جماعت پر مقدم رکھے۔اور باقی صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے رحم کی دعاء کرے، اور ان کی لغزشیں بیان کرنے سے زبان کو روک کر رکھے، وہ اس باب میں ہدایت اور استقامت کی راہ پر ہے۔
خلفاء اربعہ کو باقی عشرہ مبشرہ پر او رعشرہ مبشرہ کو باقی اصحاب بدر پر او رانہیں اصحاب بیعت رضی اللہ عنہم اجمعین پر مقدم رکھنا اہل سنت کا طریق کارہے۔
بحیثیت مجموعی تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت رکھنا، ان کے لیے رحم اور مغفرت کی دعا کرنا اور ان کی خطاؤوں اور لغزشوں سے چشم پوشی کرنا اہل سنت و الجماعت کے ایمان کا حصہ اور ان کے بنیادی عقیدہ کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے اور یہی راہ ِ استقامت ہے کہ انسان ان بوگوں کو مقدم رکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے فضیلت میں مقدم رکھا ہے۔اور باقی صحابہ کے لیے اللہ کی رضامندی کا سوال کرتا رہے۔یہی اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے۔
عشرہ مبشرہ اور اہل سنت
جب گمراہ اور بدعتی فرقوں نے صحابہ کرام پر طعن کیا، اور انہیں کافر اورمرتد کہا تو اس سے یہ بھی لازم آیا کہ وہ ان احادیث کاانکار کردیں جنت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے جنتی ہونے کی گواہی ہے۔کیونکہ کافر اورمرتد تو جنت میں نہیں جاسکتا۔ چنانچہ انہوں نے ان صاف واضح اورصریح نصوص کاانکار کرنے میں کسی تأمل سے کام نہیں لیا۔ جب کہ اہل ِ سنت والجماعت جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے محبت رکھنے والی جماعت ہے، ان احادیث پر نہ صرف ایمان رکھتے ہیں جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی بشارت ہے، بلکہ صحابہ کرام کا دفاع کرنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ مصنف رحمہ اللہ اس پیرائے میں اسی عقیدہ پر گفتگو کررہے ہیں:
164۔مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((والسنۃ أن تشہد أن العشرۃ الذین شہد لہم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بالجنۃ أنہم في الجنۃ، لاشک فیہ۔))
’’اور یہ بھی ایمان کا حصہ ہے کہ جن دس لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی گواہی [خوشخبری] دی ہے، وہ بغیر کسی شک و شبہ کے جنت میں ہیں۔‘‘
شرح: … سنت طریقہ ء کار یہ ہے کہ جن لوگوں کے جنتی ہونے کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے، ان کے لیے ہم بھی جنتی ہونے کی گواہی دیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد احادیث پر بغیر کسی تاویل و تحریف اور انکار کے ایسے ہی ایمان رکھیں جیسے آپ سے منقول ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] علی بن یونس العاملی: الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم 3/ 76۔