کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 515
شرح: … یہ شیعہ کے بارے میں بیان کیا جارہا ہے۔ جس کسی نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں توقف کیا اور کہا کہ:’’ بیشک خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا، حضرت عثمان کا حق نہیں تھا، وہ انسان شیعہ ہے(اس سے بچ کر رہنا چاہیے)۔
شیعہ سے برأت کا اظہار کرنا چاہیے۔نہ ہی ان کے ثقہ ہونے کا حکم لگایا جائے، اور نہ ہی ان کے ساتھ(عزت و اکرام کے ساتھ) بات چیت کی جائے۔اور نہ ہی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رکھا جائے۔ اس لیے کہ ان کا ضرر اور برائی ان کے ہم نشینوں تک پھیلنے کا خوف ہے۔ کیونکہ ہمیشہ گمراہی کی دعوت دینے والے اپنے ہم مجلسوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کوعثمان رضی اللہ عنہ پر فضیلت دے…):
یعنی خلافت میں۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ ان دونوں میں سے افضل کون ہے؟ اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل ہیں، اور بعض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو فضیلت دیتے ہیں۔ جب کہ خلافت میں جو کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر مقدم سمجھے، تو وہ گمراہ ہے۔ اس لیے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلافت میں مقدم کرنے پر اجماع ہے۔
یہاں پر مصنف رحمہ اللہ سے ایک چوک ہوگئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فضیلت دینے والے کو رافضی قرار دیا ہے، جب کہ رافضی وہ ہے جو حضرات ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہم کو گالی دیتے اور برا بھلاکہتے ہیں۔
سب سے زیادہ نصوص حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں، اور پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں، اور پھرابو بکر اور عمر کی فضیلت میں اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت کی وہ روایات جن میں شیخین کا بھی ذکر ہے۔ پھر اس کے بعد ان چاروں خلفاء کا ذکر آتا ہے۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اصحاب ِ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کو چھوڑ دیا …): اسی وجہ سے انہیں رافضہ کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب انہوں نے حضرت زید بن علی سے پوچھا کہ آپ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کیا کہتے ہیں: تو آپ نے جواب دیا: ’’ میں ان سے محبت کرتا ہوں، اور ان سے دوستی رکھتا ہوں، اس لیے کہ یہ دونوں میرے دادا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیرہیں۔ تو کہنے لگے:(اگرتم ایسے کہتے ہو) تو پھر ہم آپ کو چھوڑتے ہیں اور آپ کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے، اس وجہ سے ان کانام رافضہ پڑگیا۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت زید بن علی نے سنا کہ ان کے لشکر کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر طعن کررہے ہیں۔ انہوں نے اس کا انکار کیا، تو جن لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی آپ سے علیحدہ ہوگئے۔تو آپ نے ان سے کہا: ’’ رفضتمونی۔‘‘ ’’تم نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔‘‘
کہا گیا ہے کہ زیدبن علی کے اس قول: ’’رفضتمونی۔‘‘