کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 511
جن کی اللہ تعالیٰ نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی کی ہے، وہ انسان شروع سے لے کر آخر تک جہمیت سے بری ہوگیا۔‘‘
مذکورہ پیرائے میں مصنف رحمہ اللہ نے جب یہ بات ذکر کی کہ مرجئہ گمراہ فرقوں کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، تو پھریہ بھی بیان کیا کہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ان کے بر عکس ہے۔اس لیے کہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ ایمان قول و عمل اور تصدیق کا نام ہے، کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔ نیکی کے کام کرنے سے بڑھتا ہے اور نافرمانی کے کام کرنے سے کم ہوتا ہے۔ جب کہ مرجئہ کے ہاں عمل ایمان میں داخل نہیں۔ اس وجہ سے نہ ہی ایمان کم ہوتا ہے اور نہ ہی بڑھتا ہے۔ ان کے ہاں ایمان بسیط ہے مرکب نہیں۔
(مصنف رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان):(ہر نیک و فاجر کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے،…):
یعنی جس کا یہ ایمان ہو، ایسا انسان خارجی فرقہ کے معتقدات(عقائد)سے بری ہوجاتا ہے۔یہاں مصنف رحمہ اللہ نے چار فرق بیان کیے ہیں:
1۔ جو کوئی مسلمان حاکم کی(نیکی کے کاموں میں) اطاعت کرے،اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے مسلمان حاکم کے خلاف بغاوت نہ کرے، جوکہ کفر تک نہ پہنچتا ہو، یا کبیرہ گناہ کی وجہ سے اسے کافر نہ کہے۔تو ایسا انسان خوارج کے اعتقاد سے بری ہوجاتا ہے۔
2۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے کہ مسلمان حاکم کے پیچھے نماز پڑھنا اوران کی امارت میں جہاد فی سبیل اللہ کرنا جائز ہے۔
3۔ چونکہ جہاد خلیفہ کے ساتھ رواں ہے،(کوئی انسان حاکم کے کسی گناہ کی وجہ سے) حکمران کے خلاف بغاوت کو جائز نہ سمجھے۔ بلکہ ان کی اصلاح کے لیے دعاء کرے، اور جب مسلمان حاکم جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دے، تو ان کی بات مان کر اللہ کی راہ میں نکل پڑے۔ یقیناً وہ خارجیوں کے اقوال سے شروع سے آخر تک نکل گیا۔
4۔ اور جس نے کہا: ’’ تمام اچھی اور بری تقدیریں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں۔جو بھی اچھی یا بری چیز سامنے آتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ایمان اور کفر، گناہ اور نیکی، بھوک و افلاس اور مال و دولت، بیماری اور صحت اور باقی تمام امور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جن کے بارے میں اللہ کے ہاں فیصلہ ہوچکا ہے، اور اب وہ اس فیصلے کے مطابق ظاہر ہورہے ہیں۔کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر سے باہر نہیں ہوتی۔ یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔
وہ جس کو چاہے ہدایت دے، اور جس کو چاہے گمراہ کردے‘‘۔وہ شروع سے آخر تک فرقہ ء قدریہ کے اقوال سے بچ گیا، اور وہ اہلِ سنت و الجماعت ہے۔ اللہ تعالیٰ گمراہ اسی انسان کو کرتا ہے جو گمراہی کے اسباب کا ارتکاب کرے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾(الصف: 5)