کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 509
بدعتی عقیدہ سے نجات کیسے؟
مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((فمن قدّم أبا بکر وعمر وعثمان [وعلیاً(رضی اللّٰه عنہم)] علی جمیع أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم، ولم یتکلم في الباقین إلا بخیر، ودعا لہم، فقد خرج من التشیع أولہ و آخرہ۔))
’’جس نے حضرت ابو بکر و عمر او رعثمان و علی رضی اللہ عنہم کو تمام أصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدم جانا، اورباقی صحابہ کرام کی شان میں خیر کے علاوہ کوئی(گستاخانہ) بات نہ کی،اور ان کے لیے(رحمت و مغفرت کی)دعا کی، وہ شیعیت کے اول و آخر سے نکل گیا۔‘‘
شرح: …یہ اہل سنت و الجماعت کا مذہب ہے جو کہ شیعہ اور روافض کے مذہب کے عکس ہے۔ اس لیے کہ اہل سنت و الجماعت ابو بکر و عمر اور عثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین کو اسی ترتیب کے ساتھ مقدم جانتے ہیں۔ جب کہ شیعہ کہتے ہیں: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھا، لہٰذا پہلے تین خلفاء(چونکہ انہوں نے ظلم کرکے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ حق چھینا ہے، اس لیے ان) کی خلافت باطل ہے۔اور اسی بنا پر وہ خلفاء ثلاثہ پر کافر ہونے کا فتوی بھی لگاتے ہیں۔
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(باقی صحابہ کی شان میں کوئی(گستاخانہ) بات نہ کی):
یعنی صرف ان کے لیے دعاء خیر ہی کی، اور انہیں اچھے لفظوں میں یاد کیا۔اس پیرائے میں شیعہ اور روافض پر رد ہے جوکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سبّ و شتم اور لعن و طعن کرتے ہیں۔یا جیسے بعض دوسرے گمراہ فرقے صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان میں گستاخانہ رویہ رکھتے ہیں۔جب کہ مسلمان پر واجب یہ ہوتا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھے، ان کی تعریف اور مدح بیان کرے، اور ان کی کسی ایسی بات میں خود کو داخل نہ کرے جس کا بیان کرنا مناسب نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی جھگڑوں کے بارے میں اپنے قیاسات بیان کرے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک مجتہد تھا، اور ہر ایک حق کی تلاش میں تھا۔ اس بنا پر ان کے مابین جو جھگڑا ہوا، وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس میں معذور ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہونے کی وجہ سے ان کے گناہ مغفور ہیں۔ آپ دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کتنے ہی مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تعریف اورمدح بیان کی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تعریف کی ہے، او ران کے جنتی ہونے کی گواہی دی ہے۔
مصنف رحمہ اللہ نے اس موقع پر اہل سنت کی نشانی بیان کی ہے کہ جو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فضائل میں اسی ترتیب سے جانے، اور ان کی خلافت میں بھی اسی ترتیب سے اعتقاد رکھے اور ان کی مدح و تعریف بیان کرے، اور ان کے خلاف اپنے دل میں کوئی حسد و بغض نہ رکھے، اور نہ ہی ان کے خلاف اپنی زبان کھولے، سو وہ انسان شروع سے لے کر آخر تک شیعیت سے نکل جاتا ہے، اور اس کا شمار اہل سنت و الجماعت میں ہوتا ہے۔
اس لیے کہ اہل سنت و الجماعت کے ہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل جناب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں، ان