کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 508
انسان نیک عمل کرتا ہے تو ان سے ایمان بڑھ جاتا ہے اور جب بُرے اعمال کرتا ہے تو ان سے ایمان کم ہوجاتاہے۔ مُرْجِئَہ کے ہاں اعمال ایمان میں داخل نہیں۔جب کوئی انسان زبان سے اقرار کرلے، اور دل میں اس کی تصدیق بھی کرتا ہو، خواہ وہ ایک عمل بھی نہ کرے، نہ ہی نماز پڑھے نہ ہی روزہ رکھے،پھر بھی وہ کامل ایمان والا مومن ہوگا۔ان کے ہاں ایمان نہ کم ہوتااور نہ ہی بڑھتا ہے۔ شیعہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ اہل بیت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں،اور ان کا تعلق شیعانِ علی رضی اللہ عنہ سے ہے۔ او ران کے عوام الناس بھی اس غلط خوش فہمی کا شکار ہیں۔ان کا یہ عقیدہ ہے کہ خلافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق تھی مگر پہلے کے تین خلفاء جناب حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جناب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور جناب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے چھین لیا تھا۔(پھر اس حسد کی آگ میں جل کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو جو گالیاں دیتے ہیں، او ران جو الزامات کی بارش کرتے ہیں، اس کے بیان کا موقع یہ نہیں، البتہ ان کو سمجھنے کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کتاب ’’منہاج السنۃ النبویہ فی الرد علی الشیعۃ والقدریۃ‘‘ ایک لاجواب چیز ہے، کائنات میں شیعہ کے رد پر اس جیسی کتاب نہیں لکھی گئی)۔ خوارج وہ لوگ ہیں جو مسلمان حکمران کے خلاف، جب اس سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے(بھلے وہ درجۂ کفر تک نہیں پہنچتی ہو)، تو بغاوت کرتے ہیں۔اور اس کے خلاف اسلحہ اٹھالیتے ہیں۔یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ پیدا کرتے ہیں اور کبیرہ گناہ کے مرتکب مسلمان کو کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کے مذہب کی بنیاد دو چیزوں پر ہے: اوّل: مسلمان حکمران کے خلاف بغاوت، او رمسلمانوں میں ٹوٹ پھوٹ پیدا کرنا۔ دوم: کبیرہ گناہ کے مرتکب لوگوں پر کفر کا فتوی لگانا۔ ان کے نزدیک چور کافر ہے، زانی کافر ہے، سود کھانے والا کافر ہے، رشوت کا لین دین کفر ہے۔یہ لوگ مسلمانو ں کے خلاف شمشیر زن رہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں بہت پہلے ہی خبردی تھی کہ: ((یقاتلون أہل الإیمان و یدعون أہل الأوثان))[1] ’’اہل ایمان سے قتال کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔‘‘
[1] أبوداؤد، باب في قتل الخواج، ح:4566۔سنن النسائي باب من شہر سیفہ:صحیح۔