کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 507
ہے(یعنی جودین اس کا ہے)اسی سے خوش ہے۔‘‘
ان میں سے ہر ایک اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔اور ان خواہشات کی کوئی حد نہیں جہاں ان کا خاتمہ ممکن ہو، جب کہ اس کے برعکس حق صرف ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہوسکتی۔
اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا حکم اپنے نبی کو دیا تھا کہ لوگوں کو بتا دیا جائے کہ راہ حق صرف محمدی راہ ہے، اسی کی پیروی کی جائے، اس کے علاہ باقی تمام باتیں گروہ بندی کی ہیں، فرمایا:
﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo﴾(الانعام: 153)
’’اور(اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے) یہ میری سیدھی راہ ہے اس پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ تم کو اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گی یہ وہ باتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم دیا ہے اس لیے کہ تم(ان کا خلاف کرنے سے) بچے رہو پھر(ایک بات اور بھی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے)۔‘‘
پس جو کوئی صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے وہ ان متفرق راہوں میں جاپڑتا ہے جن کی کوئی انتہاء نہیں ہے۔اس کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے گمراہ فرقوں کے چار اصول بیان کیے ہیں:قدریہ،مرجئۃ، شیعہ اورخوارج۔
قدریہ
وہ فرقہ ہے جوتقدیر کے منکر ہیں۔انہیں قدریہ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمیشہ تقدیر کے بارے میں باتیں کرتے رہتے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ ہر انسان اپنے فعل کا خالق خود ہی ہے۔اللہ تعالیٰ نے تو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں لکھا ہوا، بس جو کچھ ہے، انسان خود ہی کرتا ہے۔ معتزلہ اور ان کے ہم نوا بھی یہی کہتے ہیں۔ بعد میں ان لوگوں سے قدریہ کی ہی ایک دوسری قسم پیدا ہوئی جنہیں قدریہ مجبرہ بھی کہا جاتا ہے۔یہ لوگ قدر کو ثابت کرنے میں غلو سے کام لیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان کااپنا کوئی ارادہ او راختیار نہیں ہے۔ بلکہ انسان جو کچھ بھی کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ہی فعل ہے۔ انسان کے مثال ایک مرے ہوئے بال کی ہے جسے ہوائیں جیسے چاہیں ایسے حرکت دیتی ہیں۔ یا پھر اس کی مثال ایک مردہ کی سی ہے جو غسل دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ جیسا چاہے سلوک کرلے۔ ان لوگوں کو جبریہ اور مجبرہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان جو کوئی بھی نیکی یا برائی کام کرتا ہے، وہ اس میں مجبور محض ہے۔وہ خود نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے زبردستی کرواتا ہے۔
مُرْجِئَہ
ان لوگوں کااختلاف ایمان کے بارے میں ہے۔ اہل ِ سنت و الجماعت کا ایمان و عقیدہ ہے کہ ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء سے عمل کا نام ہے۔ ایمان کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ جب