کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 504
لوگ علم میں ان سے بڑھ کر ہیں، اورجو ان سے کم ہیں، ہمارے آج کے دن تک یہی بات کہتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان مخلوق سے بڑا اور بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ [مناظرہ و جدال سے منع کرتے ہوئے ] فرماتے ہیں: ﴿ مَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ إِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِیْ الْبِلَادِ﴾(الغافر: 4) ’’ نہیں جھگڑتے اللہ کی آیتوں میں مگروہی لوگ جنہوں نے کفر کیا، پس ان کا شہروں میں پھرنا آپ کو دھوکہ نہ دے۔‘‘ اور ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے-قرآن کی آیت کے بارہ میں۔ پوچھا، کہنے لگا:’’ما الناشطات نشطاً۔‘‘’’ بند توڑ کر پھیلادینے والی کیا ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:’’ اگر تم سر منڈے ہوتے تو میں تمہاری گردن ماردیتا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((المؤمن لا یماري، ولا أشفع للمماري یوم القیامۃ، فدعوا المراء لقلۃ خیرہ))[1]
’’مؤمن جھگڑا نہیں کرتا، اور نہ ہی میں روز ِ محشر جھگڑا کرنے والوں کی شفاعت کروں گا، بس جھگڑا کرنا اس وجہ سے چھوڑ دو کہ اس میں خیر بہت ہی کم ہے ‘‘[2]
شرح: … مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مناظرہ کرنے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے…):
اس سے مراد وہ مناظرہ ہے جس سے مقصود لوگوں کو تشویش میں مبتلا کرنا ہو۔ او رہرایک اپنی رائے یا سوچ و فکر کی تائید میں دلائل پیش کرتا ہو۔ ان میں سے کوئی ایک بھی حق تک پہنچنے کا خواہش مند نہیں ہوتا، بلکہ ان کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ کیسے وہ اپنے حریف پر غالب آجائے۔ ایسا مناظرہ کرنا انتہائی مذموم اور نا پسندیدہ ہے۔کیونکہ یہ مناظرہ اللہ کی رضا کے لیے اور حق کی تلاش میں نہیں بلکہ اپنے آپ کو اونچا کرنے کے لیے ہے۔ ہاں اگر مناظرہ سے مقصود حق کی تلاش ہو، تو پھر اس میں کوئی حرج والی بات نہیں، بلکہ ایسا کرنا مطلوب شریعت ہے۔ یہ ہمیشہ سے اہل حق یعنی اہل سنت و الجماعت کا منہج اور طریقہ کار رہا ہے کہ بلاوجہ مناظرہ بازی نہیں کیا کرتے تھے، سوائے اہم ترین ضرورت کے۔ اہل حق و اہل باطل میں
[1] جس آدمی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تھا، اس کا نام صبیغ ابن نصر التمیمی ہے، اور اس کا قصہ بڑا مشہور ہے۔ یہ عام شہروں اور میں اسلامی فوجی چھاؤنیوں میں شبہات پھیلاتا پھرتا تھا ۔اس کا معاملہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیش کیا گیا، تو آپ نے بطور سزا کوڑے لگائے، اور فرمایا: اگر تم سر منڈے ہوتے (اشارہ ہے خوارج کی طرف) تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا (اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے)۔ یہ قصہ ان ائمہ نے روایت کیا ہے: ’الدارمی (1/51) پر،ابن وضاح ’’ البدع‘‘ پر (ص 56)، امام آجری نے ’’الشریعہ ‘‘ (ص73) پر، لالکائی نے ’’ السنۃ ‘‘(4/634-636) پر، اور ابن بطہ نے ’’الإبانۃ الکبری،، (1/414-415) پر ۔
[2] ضعیف جداً۔ أخرجہ الطبراني في ’’الکبیر ‘‘ (8/178-179)، امام آجری نے ’’الشریعہ ‘‘ پر (ص 55 -56)، اور ابن بطہ نے ’’الإبانۃ الکبری‘‘(2/489- 490) میں، اور اسماعیل ہروی نے ’’ذم الکلام ‘‘ میں 75 نمبر پر روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (1/ 156، 7/ 259) میں کہا ہے:’’ اس میں کثیر بن مروان ہے، وہ بہت ہی ضعیف ہے‘‘اور (1/106) میں کہا ہے: ’’ اس میں مروان بن کثیر ہے، جس کو امام یحي (بن معین) اور امام دار قطنی نے جھوٹا کہا ہے ۔ دیکھیں: میزان الإعتدال، امام ذہبی رحمہ اللہ (3/409)۔
اگرچہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، تاہم دوسری روایات میں کٹ حجتی اور نا حق مجادلہ و مناظرہ کی ممانعت موجود ہے ۔ جس سے نفس ِ مضمون کی صحت ثابت ہوتی ہے ۔اور اس سے ان لوگوں کے لیے بہت سخت وعید ثابت ہوتی ہے جو ناحق مناظروں کے چکر میں لگے رہتے ہیں۔