کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 503
ہوئے ایک دوسرے پر حجت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، او رہر ایک ایسی آیت سے استدلال کرتا ہے جو کہ بظاہر دوسری آیت سے ٹکراؤ رکھتی ہے، اور یہ کہتے ہیں کیا اللہ نے ایسے نہیں فرمایا، کیا اللہ نے ایسے نہیں فرمایا؟ تو یہی طریقہ گمراہ اور باطل پرست فرقوں کا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ﴾(آل عمران: 7) ’’وہ ذات جس نے آپ پر یہ کتاب(قرآن شریف) اتاری، اس میں بعض آیتیں کھلی صاف مضمون کی ہیں وہ تو قرآن شریف کی اصل ہیں(جن کو محکم کہتے ہیں) اور بعض آیتیں متشابہ(مضمون) کی ہیں(جوکئی پہلو رکھتی ہیں) پھر جن کے دل پھرے ہوئے ہیں(یعنی باطل کی طرف جھکے ہوئے) وہ لوگوں کو گمراہ کرنے اور اصلی حقیقت دریافت کرنے کی نیت سے متشابہ آیتوں نے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔‘‘ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کیاتم اس بات کا حکم دیے گئے ہو؟(یعنی کیسی غلط حرکت کرکے اپنے اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرنے سے منع فرمارہے ہیں کہ کتاب اللہ کو آپس میں ٹکرایا جائے، اور بعض آیات کا سہارا لے کر دوسری آیات کا رد کیا جائے۔یہ اللہ تعالیٰ نے عالم کو توفیق دی ہوتی ہے کہ وہ ان آیت کے معانی اور آپس میں جمع و تطبیق کی وجوہات جانتا ہے، اور راہ ِ حق کو پالیتا ہے۔ رہے جہلاء اور ہٹ دھرم، جن کے پاس نہ صحیح علم ہے اور نہ ہی صحیح اصول تو وہ ایسے ہی گمراہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ مناظرہ اور سلف صالحین مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وکان ابن عمر رضی اللّٰه عنہما یکرہ المناظرۃ و مالک بن أنس و من فوقہ و من دونہ[ رحمۃ اللّٰه علیہم ] إلی یومنا ہذا، وقول اللّٰه [ عزوجل] أکبر من قول الخلق، قال اللّٰه تبارک وتعالیٰ: ﴿ مَا یُجَادِلُ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ إِلَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَلَا یَغْرُرْکَ تَقَلُّبُہُمْ فِیْ الْبِلَادِ﴾(الغافر: 4) وسأل رجل عمر [بن الخطاب] فقال:’’ما الناشطات نشطاً؟ فقال:’’ لو کنت محلوقاً، لضربت عنقک۔‘‘وقال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم: [المؤمن لا یماري، ولا أشفع للمماري یوم القیامۃ، فدعوا المراء لقلۃ خیرہ۔])) ’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مناظرہ کرنے کو مکروہ سمجھا کرتے تھے اور ایسے ہی حضرت مالک بن أنس اور جو