کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 502
صحیح علم کو صاف وسلیم منہج پر نشر کرتا رہتا ہے، اگر لوگ اسے قبول کرلیں تو الحمد للہ، اگر نہ مانیں تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس لیے کہ اس نے اپنا فریضہ ادا کردیا، اور لوگ پر حجت پوری کردی۔ اب دلوں کو راہِ ہدایت پر لانا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اسی وجہ سے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے مناظرہ کرنے والے سے کہا: ’’ میں اپنا دین جانتا ہوں، یعنی میرے لیے کوئی چیز پوشیدہ اور مبہم نہیں ہے کہ اس کے واضح ہونے کے لیے میں تم سے مناظرہ کروں۔جب کہ تمہیں اپنے دین کے بارے میں شک و ابہام ہے تو جاکر اسے تلاش کرو،صحیح علم حاصل کرو۔
دین اتباع سنت میں ہے
مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((واعلم أن الدین ھو التقلید، و التقلید لأصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم۔ وسمع رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم قوماً علی باب حجرتہ یقول أحدہم:’’ ألم یقل اللّٰه کذا۔ وقال الآخر: ألم یقل [ اللّٰه ] کذا؟ فخرج مغضباً، فقال: ’’ أبہذا أمرتم ؟ أم بہذا بعثت إلیکم، أن تضربوا کتاب اللّٰه بعضہ ببعض۔‘‘فنہاہم عن الجدال۔))
’’اور جان لیجیے کہ دین تقلید کا نام ہے، اورتقلید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی کی جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ کے دروازہ پر کچھ لوگوں کو سنا۔ ان میں سے ایک آدمی کہہ رہا تھا: ’’ کیا اللہ تعالیٰ نے ایسے نہیں فرمایا۔اور دوسرے نے کہا: ’’ کیا اللہ تعالیٰ نے ایسے نہیں فرمایا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی غضب ناک حالت میں باہر تشریف لائے، اور فرمایا:
((أبہذا أمرتم ؟أم بہذا بعثت إلیکم، أن تضربوا کتا ب اللّٰه بعضہ ببعض))[1]
’’ کیا تم اس بات کا حکم دیے گئے ہو ؟ اورکیا میں یہی چیز دیکر تمہاری طرف مبعوث کیا گیا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو آپس میں ایک دوسری آیت سے رد کرو۔‘‘اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا کرنے سے منع کیا۔‘‘
شرح: … مناظرہ ان امور میں ہوتا جو کہ خفیہ ہوں، اور یہ پتہ نہ چل رہا ہو کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ تو اس صورت میں مناظرہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ حق کس کے ساتھ ہے۔ جب حق بات واضح ہوجائے، تو الحمد للہ یہی مقصود ہے۔البتہ جو چیز واضح اور صاف ظاہر ہو، اس میں مناظرہ کی کوئی ضرورت نہیں، اس لیے کہ ایسا مناظر صرف لوگوں میں نام کمانا چاہتا ہے، اس سے مقصود حق کی تلاش نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:((کیا تمہیں اس بات کا حکم دیا گیا ہے… ؟)): مناظرہ کے بارے میں ایک عظیم اصول ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سناکہ کچھ لوگ قرآن میں مناظرہ کررہے ہیں،اور متشابہات سے استدلال کرتے
[1] احمد (2/195-196،صحیح)، وابن ماجۃ في المقدمۃ، باب في القدر85، واللالکائی في ’’السنۃ‘‘ (1118-1119)۔ وصححہ البوصیري في زوائد ابن ماجۃ (1/14)، والألبانيفي حاشیۃ شرح الطحاویۃ(ص 218)۔