کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 501
سامنے جھک جانے) سے کام لے۔ اگر اس کی بات قبول کرلی جائے تو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے، اور اگر اس کی بات رد کر دی جائے تو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے[1]۔ ایک آدمی حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس آیا، اور کہنے لگا: ’’ میں آپ سے دین کے بارے میں مناظرہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرمانے لگے:’’ میں اپنے دین کی معرفت رکھتا ہوں، اور اگر تم اپنے دین سے گمراہ ہوگئے ہو تو جاؤ اور اسے تلاش کرو۔‘‘[2] شرح: … مصنف رحمہ اللہ کا قول:(اس کتاب کے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھے): اس سے مقصود اس کتاب میں اہل ِ سنت والجماعت کا عقیدہ بیان ہوا ہے، اگر اس کے متعلق کوئی سوال کرے، یا سمجھنا چاہے، یا کسی شبہ کا ازالہ کرنا چاہے، تو اس کی رہنمائی کی جائے۔ اس لیے کہ اس کتاب میں اجمالی طور پر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ سائل دو قسم کے ہوتے ہیں: اوّل: حق کا طالب: … اس کا حق ہے کہ آپ اسے جواب دیں، اس کا حوصلہ بڑھائیں، اور مسئلہ بیان کریں تاکہ حق بات واضح ہوجائے، اور انسان گمراہی سے بچ جائے۔ دوم: سرکش اور باغی: … جو صرف کٹ حجتی کرکے لوگوں کو شکوک و شبہات میں ڈالنا چاہتا ہو، یا اس حرکت سے لوگوں کے سامنے اپنی علمیت ظاہر کرکے ان کی توجہ حاصل کرنا چاہتا ہو، مقصود دنیا کماناہو۔ یہ شیطان ہے، اس سے خود بھی بچ کررہنا چاہیے، اور لوگوں کو بھی خبردار کرنا چاہیے۔اور ایسا انسان جب مناظرہ کرنا چاہے تو اس سے کے ساتھ مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ اپنے سوال و جواب اور حجت بازی سے لوگوں کو تشویش میں ڈالنا چاہتا ہے۔ یہاں پر مناظرہ سے منع کرنے سے مقصود اصول دین(اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور دوسرے عقیدہ کے مسائل)میں مناظرہ سے منع کرنا ہے۔ اس لیے کہ ایسے موقع پر مناظرین کے لیے بھی اور ناظرین کے لیے بھی شبہات پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا اسلوب اور حکمت کے ساتھ جواب دے دینا چاہیے۔ ہاں جب کو ئی انسان اس فن پر دسترس رکھتا ہو،اور اسے مسائل اور ان کے دلائل کا علم ہو تو اس کے لیے دین ِ حق کی نصرت کے لیے مناظرہ کرنے کی اجازت ہے۔ حسن بصری کا فرمان:(حکیم انسان نہ ہی جھگڑا کرتا ہے اور نہ ہی اپنی حکمت کو…): مراد یہ ہے کہ ایسا انسان جس کو اللہ تعالیٰ دین کو سوجھ بوجھ سے نوازا ہو،او روہ دعوت ِ دین اور مناظرہ کی حکمت جانتا ہو، تووہ ایسی باتوں میں کبھی مناظرہ نہیں کرتا جن سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔اورنہ ہی اہل بات کس سامنے صحیح دلیل ترک کرکے سر تسلیم خم کرلیتا ہے۔ مدارت عربی زبان میں کہتے ہیں: دنیا کے لیے دین کے کسی پہلو کے ترک کرنے کو۔ مقصود یہ ہے کہ حکیم و دانش مند انسان اپنی حکمت(علم اور فقہ) کے نشر کرنے میں مدارت سے کام نہیں لیتا۔بلکہ وہ
[1] اسے نعیم بن حماد نے ’’ زوائد علی الزھد لابن المبارک‘‘ (ص30) میں نقل کیاہے۔اور ابن بطہ ’’الإبانۃ الکبری‘‘(611) میں نقل کیا ہے ۔ [2] اسے آجری نے ’’الشریعۃ‘‘(ص 57) میں نقل کیا ہے اور لالکائی نے ’’ السنۃ‘‘ میں(215)، اور ابن بطہ ’’الإبانۃ الکبری‘‘(586) میں نقل کیا ہے ۔