کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 500
((أَ لَا وَإِنِّي أُوْتِیْتُ الْکِتَابَ وَ مِثْلَہٗ مَعَہٗ، أَلَاوَ إِنِّي أُوتِیْتُ الْقُرْآنَ وَ مِثْلَہُ، أَلَاوَ إِنِّي أُوتِیْتُ الْقُرْآنَ وَ مِثْلَہُ، أَلَا إِنَّہٗ یُوشِکُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلَی أَرِیْکَتِہٖ یَقُولُ: عَلَیْکُمْ بِہَذَا الْقُرْآنَ فَمَا وَجَدْتُمْ فِیہِ مِنَ حَلَالٍ فَأَحِلُّوہُ، وَمَا وَجَدْتُمْ فِیْہِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوْہُ))[1]
’’آگاہ ہوجاؤ مجھے کتاب اور اس کے ساتھ اس جیسی چیز دی گئی ہے۔ آگاہ ہوجاؤ مجھے قرآن اور اس جیسی چیز دی گئی ہے، آگاہ ہوجاؤ مجھے قرآن اور اس جیسی چیز دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کوئی آسودہ حال انسان اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے یہ نہ کہے کہ تم اس قرآن کو اختیار کرلو، اس میں جو حلال پاؤ اسے حلال جانو، او ر اس میں جو چیز حرام پاؤ اسے حرام جانو۔‘‘
سائل کی اقسام
159 مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
((وإذا سألک أحد عن مسألۃ في ہذا الکتاب، وہو [مسترشد]، فکلمہ وأرشدہ،وإذا جاء ک یناظرک، فاحذرہ، فإن في المناظرۃ: المراء و الجدال والمغالبۃ والخصومۃ والغضب-وقد نُہِیت عن [جمیع] ہذا جداً-[ وہو یزیل عن ] طریق الحق، و لم یبلغنا عند أحد من فقہائنا وعلمائنا أنہ ناظر أو جادل أو خاصم۔ قال الحسن البصري: ’’ الحکیم لا یماري و لا یداري [في] حکمتہ [أن] ینشرہا، إن قبلت حمد اللّٰه، وإن ردت حمد اللّٰه۔وجاء رجل إلی الحسن فقال: أنا أناظرک في الدین۔ فقال الحسن: ’’ أنا عرفت دیني، فإن ضلّ دینک فاذہب فاطلبہ۔‘‘))
’’جب آپ سے کوئی اس کتاب کے کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھے اور وہ رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہو، تو اس سے بات کریں اور اس کی رہنمائی کریں اور جب وہ آپ سے مناظرہ کرنا چاہتا ہو، تو اس سے بچ کررہیں۔ اس لیے کہ مناظرہ میں تکبری، جدال اور ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش، ناحق جھگڑا، اور غصہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان تمام امور سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے انسان راہ ِ حق سے ہٹ جاتا ہے۔ہمیں ہمارے علماء اور فقہاء میں سے کسی ایک کے متعلق یہ خبر نہیں ملی کہ: کسی نے مناظرہ، جدال یا جھگڑا کیا ہو۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ حکیم انسان نہ ہی جھگڑا کرتا ہے، اور نہ ہی اپنی حکمت کو نشر کرنے میں مدارت(اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کسی چیزکے بیان کے ترک کرنے اور ان کے
[1] صحیح، رواہ المصنف 97، أحمد 4/130 -131 ۔ أبو داؤد 4604۔ والترمذی 2664۔ مختصر الشریعہ ص 43۔