کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 498
ہے۔اس لیے کہ احادیث میں تشبیہ ہے، جس سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے لیے تعظیم کا لفظ بول کر حقیقی تعظیم مراد نہیں لیتا، بلکہ اس کا ہدف اور مراد یہ ہے کہ وہ ان احادیث پر عمل و عقیدہ نہیں رکھتا۔ یوں احادیث ِ صحیحہ کو رد کرکے اللہ تعالیٰ کی صفات اور اسماء کے انکار کو انہوں نے تعطیل کے لیے وسیلہ بنادیا اور یہ بات ان کی نشانی بن گئی کہ جب بھی ایسی آیت سنتے جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات بیان ہوں، توکہتے ’’ ہم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘اس سے ان کا مقصد صفات ِ الٰہیہ کا انکار ہوتا ہے۔اورعوام الناس جب یہ سنتے ہیں کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تعظیم بیان کرتے ہیں، تووہ ایسے گمراہ لوگوں(جہمیہ وغیرہ) کے کلمات سے ظاہر مراد لیتے ہیں، اوران کی باتیں عوام کے دل کو بہا جاتی ہیں جب کہ ان کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس لفظ کے بولنے سے وہ خود کیا مراد لیتے ہیں۔(کیونکہ ان کا مقصود تو ایک دوسرا روپ ظاہر کرکے حدیث کو رد کرناہے)۔
مصنف رحمہ اللہ کا قول:(…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد …):
حدیث ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے تعارض کا بہانا بنا کر رد کرنا مختلف بدعتی فرقوں کا معمول رہا ہے۔ عصر حاضر میں پرویزی، چکڑالوی، منکرین ِ حدیث اور دوسرے لوگ اس میں پیش پیش ہیں جو خود کو اہل قرآن کہتے ہیں اور قرآن کے علاوہ احادیث کو رد کرتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث ہی اس لیے کیا تھا تاکہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے اور بار بار ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہٗ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُوا اللّٰہَ﴾(الحشر: 7)
’’ جو کچھ تمہیں اللہ کے رسول دیدیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ،اور اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو برے انجام سے ڈرایا ہے جو مختلف حجتوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌo﴾(النور: 63)
’’ جو لوگ ان کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ(ایسا نہ ہو کہ) ان پر کوئی آفت پڑ جائے یا تکلیف دینے والا عذاب نازل ہو۔‘‘
ایک دوسرے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور آپ کے فیصلوں پر رضامندی کو ایمان کے لیے بنیادی شرط قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً