کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 496
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے، جس کے اوقات اور رکعات کی تفصیل احادیث نبویہ میں ملتی ہے۔ زکواۃ کا حکم قرآن میں ہے، مگر اس کی مقدار اور شروط احادیث میں ملتی ہیں۔
اس طرح دیگر کئی ایک مثالیں ہیں جو اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے تشفی بخش ہیں۔
بدعات پر رد کیسے ؟
157 مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((ولا تطلب من عندک حیلۃ ترد [بہا] علی أہل البدع فإنک أمرت بالسکوت عنہم، ولا تمکنہم من نفسک، أما علمت أن محمد بن سیرین-رحمہ اللّٰه-في فضلہ-لم یجب رجلًا من أہل البدع في مسألۃ واحدۃ، ولا سمع منہ آیۃ من کتاب اللّٰه [ عزوجل ]، فقیل لہ: فقال: ’’ أخاف أن یحرِّفہا فیقع في قلبي شيء۔))
’’اہل بدعت پر رد کرنے کے لیے اپنی طرف سے حیلے نہ اختیار کریں۔اس لیے کہ[اس کے بارے میں] آپ کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیاہے۔ انہیں اپنے نفس پر غلبہ نہ حاصل ہونے دو۔کیا آپ جانتے نہیں کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے-اپنے علم و فضل کے باوجود-اہل بدعت کے ایک انسان کے ایک سوال کا بھی جواب نہیں دیا اور نہ ہی اس سے کتاب اللہ کی آیت سنی، ان سے کہا گیا(کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ؟تو)،فرمانے لگے:’’ میں اس بات کا خدشہ محسوس کررہا تھا کہ وہ اس آیت میں تحریف کرے، اور وہ [تحریف] میرے دل میں جگہ پکڑ لے۔‘‘[1]
شرح: … مقصود یہ ہے کہ جب انسان ایسی شبہات کی باتیں یا وہ کلام سنے جو دین میں مناسب نہیں ہے، تو ان پر رد کرنے میں تکلف نہ برتے،اور دینی غیرت اور حمیت کی وجہ سے نصرت دین کے لیے وہ ذریعہ نہ اپنائے جو اس کے بس میں نہیں، یاوہ جس کے اہل نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جب جہالت کا رد جہالت سے ہوگا،تو اس سے اور بڑے مصائب کھڑے ہوں گے، اور اصلاح کے بجائے فساد کا اندیشہ بڑھ جائے گااور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسرا فریق چرب اللسان اور کلام کا ماہر ہو، جس کے سامنے مناظر دلیل کو صحیح طور پر نہ پیش کرسکیں اس وجہ سے حق اور اہل حق کو رسوائی اور خجالت کا سامنا کرنا پڑے، اور عوام الناس میں غلط تأثر قائم ہو۔
اور جب آپ جہالت میں کسی پر رد کریں گے تووہ آپ پر رد کرے گا، اور آپ پر غالب آنے کے لیے آپ کی غلطیاں تلاش کرے گا، اس سے صورت میں آپ خطا کار ہوں گے۔ اس کے برعکس جب آپ علم کی روشنی میں رد کریں گے اور حجت قائم کریں گے تو وہ آپ کی بات رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکیں گے۔
[1] اسے امام دارمی رحمہ اللہ نے’’السنن‘‘ (1/91) میں روایت کیا ہے، اور ابن وضاح نے ’’ البدع ‘‘ (ص 53) میں، اور آجری نے ’’ الشریعۃ ‘‘ (ص 57) میں، اور لالکائی نے ’’ السنۃ‘‘ (242) میں، اور ابن بطہ نے ’’ الإبانۃ الکبری ‘‘ (ص 398- 399) میں صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔